کیا آپ کو بھی کبھی کراچی یا لاہور کی ٹریفک میں پھنس کر یہ خیال آیا ہے کہ کاش پر ہوتے اور اڑ کر منزل پر پہنچ جاتے؟ یقین مانیں، یہ صرف آپ کا نہیں، ہم سب کا خواب ہے۔ مگر اب یہ خواب حقیقت بننے والا ہے، اور بہت جلد!

فلائنگ ٹیکسیاں ہماری شہری زندگی کا ایک نیا اور دلچسپ باب کھولنے والی ہیں۔ سوچیں، بغیر کسی رکاوٹ کے آسمان میں اڑتے ہوئے، چند منٹوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانا۔ کیا یہ جادو سے کم ہوگا؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ اب ہماری صبح کی چائے کے دوران خبروں میں یہ بات عام ہوگی کہ آج فلائنگ ٹیکسی سے سفر کیا اور سارا دن بچ گیا۔یہ کوئی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں رہا، بلکہ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ ہماری سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں جلد ہی آسمان میں اڑتی نظر آئیں۔ میرے دوستو، یہ صرف وقت بچانے والی بات نہیں، بلکہ یہ ہمارے شہروں کو آلودگی سے پاک کرنے اور ایک نئے دور کی جانب لے جانے کا ذریعہ بھی ہے۔ بجلی سے چلنے والی یہ فلائنگ ٹیکسیاں ہمارے ماحول پر بھی مثبت اثر ڈالیں گی۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جس طرح سمارٹ فون ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں، بالکل اسی طرح یہ فلائنگ ٹیکسیاں بھی ہماری روزمرہ کی ضرورت بن جائیں گی۔ یقین کریں، جب پہلی بار آپ کسی فلائنگ ٹیکسی کو اڑتے دیکھیں گے، تو آپ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آئے گا۔ اس جدید ٹیکنالوجی میں حفاظت، بنیادی ڈھانچہ اور لاگت جیسے کچھ چیلنجز بھی ہیں، لیکن ماہرین ان پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ اربن ایئر موبلٹی (Urban Air Mobility) کا یہ تصور اب دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور ہمارے بڑے شہروں میں اسے دیکھنا اب زیادہ دور کی بات نہیں لگتی۔ آئیے، اس حیرت انگیز فلائنگ ٹیکسی مارکیٹ کے بارے میں مزید تفصیلات جانیں۔ یہ کیسے کام کرے گی، کب تک ہم اسے اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھ سکیں گے، اور یہ ہماری زندگی کو کس طرح بدل دے گی – یہ سب کچھ آپ کو اس بلاگ پوسٹ میں ملے گا۔ آئیں، اس کے بارے میں مزید تفصیل سے جانتے ہیں۔
آسمان میں ہماری نئی سواری: فلائنگ ٹیکسی کا نظارہ
میرے پیارے دوستو، جب میں نے پہلی بار فلائنگ ٹیکسیوں کے تصور کے بارے میں سنا تو مجھے لگا کہ یہ کسی ہالی وڈ فلم کا سین ہے، مگر اب یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ حقیقی دنیا کی بات ہے۔ سوچیں، صبح دفتر جاتے ہوئے جب سڑکوں پر ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں، اور آپ کو یہی خیال آتا ہے کہ کاش کوئی راستہ ہوتا جو آپ کو اس مصیبت سے نکال دیتا۔ اب یہ راستہ آسمانوں میں بننے والا ہے۔ فلائنگ ٹیکسیاں نہ صرف ہمارے سفر کے طریقے کو بدل دیں گی بلکہ یہ ہماری شہری زندگی کے تصور کو بھی نئی جہت دیں گی۔ میں نے دنیا بھر کی کئی رپورٹس پڑھی ہیں اور ماہرین سے بات کی ہے، سب کا یہی کہنا ہے کہ یہ صرف ایک عیش و آرام کی چیز نہیں ہوگی بلکہ آنے والے وقتوں میں یہ ہماری بنیادی ضرورت بن جائے گی۔ جیسے آج ہم اپنی زندگی سمارٹ فون کے بغیر تصور نہیں کر سکتے، کچھ ہی سالوں میں فلائنگ ٹیکسیاں بھی ہماری زندگی کا حصہ ہوں گی۔ یہ ہمارے وقت کو بچانے کے ساتھ ساتھ شہروں میں فضائی آلودگی کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی کیونکہ ان میں سے زیادہ تر بجلی سے چلنے والی ہوں گی۔ اس سے نہ صرف ہم سفر میں آسانی محسوس کریں گے بلکہ اپنے ماحول کو بھی بہتر بنا سکیں گے۔ یہ سچ ہے کہ اس کی ابتداء میں شاید کچھ مشکلات آئیں، لیکن انسانیت نے ہمیشہ چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔ مجھے تو پورا یقین ہے کہ فلائنگ ٹیکسیاں ہمارے شہروں کا حسن بن جائیں گی اور ہمارے سفر کو ایک نیا ہی لطف دیں گی۔
فلائنگ ٹیکسی کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟
فلائنگ ٹیکسی دراصل چھوٹی الیکٹرک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ (eVTOL) گاڑیاں ہوتی ہیں جو ہیلی کاپٹر کی طرح عمودی طور پر اڑان بھرتی اور اترتی ہیں، لیکن یہ ہیلی کاپٹروں سے زیادہ محفوظ، کم شور والی اور ماحول دوست ہوتی ہیں۔ یہ عام طور پر بیٹری سے چلتی ہیں اور خودکار یا پائلٹ کے ساتھ پرواز کرتی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد شہری علاقوں میں لوگوں اور سامان کو تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔ ان کی ڈیزائننگ کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ شہروں کے تنگ علاقوں میں بھی آسانی سے استعمال ہو سکیں اور زیادہ جگہ نہ گھیریں۔ میں نے ایک دوست سے بات کی جو اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے، اس نے بتایا کہ ان گاڑیوں میں کئی چھوٹے روٹر لگے ہوتے ہیں جو انہیں stability فراہم کرتے ہیں اور کسی ایک روٹر کے فیل ہونے کی صورت میں بھی گاڑی کو محفوظ طریقے سے لینڈ کرانے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی حفاظت اور کارکردگی کا بہترین امتزاج ہے۔ سوچیں، ایک دن آپ اپنے گھر کی چھت سے اڑیں اور چند منٹوں میں اپنے دفتر پہنچ جائیں، کتنا سہولت بخش ہو گا یہ سب! یہ سب کسی جادو سے کم نہیں لگے گا جب ہم اپنی آنکھوں سے اسے ہوتا دیکھیں گے۔
eVTOL ٹیکنالوجی: مستقبل کی اڑان
eVTOL ٹیکنالوجی اس انقلاب کا دل ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو فلائنگ ٹیکسیوں کو حقیقت بنا رہی ہے۔ اس میں جدید بیٹریاں، بجلی کے موٹرز، اور خودکار فلائٹ کنٹرول سسٹمز شامل ہیں۔ یہ گاڑیاں نہ صرف کم شور کرتی ہیں بلکہ ان کا کاربن فٹ پرنٹ بھی بہت کم ہوتا ہے، جو کہ ہمارے سیارے کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ کئی پاکستانی انجینئرز بھی بین الاقوامی سطح پر اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ میں نے ایک سیمینار میں سنا کہ اس ٹیکنالوجی میں نہ صرف مسافروں کی نقل و حرکت بلکہ سامان کی ترسیل میں بھی انقلابی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت ہے۔ مثال کے طور پر، ہنگامی صورتحال میں میڈیکل سپلائیز یا اہم دستاویزات کو بہت کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ہمارے شہروں کو ایک نیا شریان نظام مل رہا ہو، جو زمین کے بجائے آسمان میں ہو۔ یہ سوچ کر ہی دل خوش ہو جاتا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کل کے خواب آج کی حقیقت بن رہے ہیں۔
پاکستان کے آسمانوں میں فلائنگ ٹیکسیوں کا مستقبل
ہم پاکستانیوں کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ یہ سب ہمارے ملک میں کب آئے گا اور کیسا محسوس ہوگا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان، خاص طور پر کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں میں جہاں ٹریفک کا مسئلہ ایک سنگین چیلنج ہے، فلائنگ ٹیکسیاں ایک گیم چینجر ثابت ہوں گی۔ میری اپنی ایک خواہش ہے کہ کاش میں کراچی کی شدید ٹریفک میں پھنسے بغیر ایک دوست کے گھر سے دوسرے دوست کے گھر چند منٹوں میں پہنچ جاؤں۔ فلائنگ ٹیکسیاں اسی خواب کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ ابھی شاید یہ تصور کچھ دور کی بات لگے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگلے 5 سے 10 سالوں میں ہم اپنے آسمانوں میں ان کو اڑتے ہوئے دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اس کے لیے یقیناً ایک مضبوط بنیادی ڈھانچہ، ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹمز اور ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہوگی، جس پر ہماری حکومت اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ میرے اندازے کے مطابق، ابتدائی طور پر یہ بڑے شہروں میں متعارف ہوں گی اور پھر بتدریج چھوٹے شہروں کی طرف پھیلیں گی۔ میں نے کئی بین الاقوامی ماہرین سے بات کی ہے جو پاکستان کی اربن ایئر موبلٹی مارکیٹ میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ ہم بھی اس عالمی تبدیلی کا حصہ بنیں۔
شہریوں کے لیے سفر کا نیا انداز
تصور کریں، آپ کو اسلام آباد سے لاہور جانا ہے اور روڈ ٹریفک کا انتظار نہیں کرنا۔ آپ ایک فلائنگ ٹیکسی بک کرتے ہیں، چند منٹوں میں ایئرپورٹ پہنچتے ہیں اور اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ ایک آرام دہ اور پرلطف تجربہ بھی ہو گا۔ مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ فلائنگ ٹیکسیاں ہماری زندگی کو بالکل بدل دیں گی، خاص کر ان لوگوں کے لیے جو اکثر شہروں کے درمیان سفر کرتے ہیں یا کاروباری مقاصد کے لیے وقت کی پابندی رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں اکثر شادیاں یا دیگر تقریبات بہت دور ہوتی ہیں اور وہاں پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ فلائنگ ٹیکسیاں اس مسئلے کا بھی حل ثابت ہوں گی۔ نہ صرف یہ مسافروں کی زندگی آسان بنائیں گی بلکہ ایمرجنسی سروسز جیسے ایمبولینسز اور پولیس کے لیے بھی یہ ایک انقلابی ٹول ثابت ہوں گی۔ شہری علاقوں میں ٹریفک جام کی وجہ سے ہنگامی صورتحال میں امداد پہنچانا کتنا مشکل ہوتا ہے، فلائنگ ٹیکسیاں اس چیلنج کو ختم کر سکتی ہیں۔ یہ صرف ایک نقل و حمل کا ذریعہ نہیں، یہ ہمارے طرز زندگی کا ایک نیا ارتقاء ہے۔
لاگت اور رسائی: عام آدمی کی فلائنگ ٹیکسی
اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ صرف امیروں کے لیے ہوں گی؟ شروع میں تو شاید ایسا ہی ہو، جیسے کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے۔ سمارٹ فونز بھی شروع میں بہت مہنگے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتیں کم ہوتی گئیں اور وہ سب کی پہنچ میں آگئے۔ مجھے یقین ہے کہ فلائنگ ٹیکسیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ جب ان کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو گی اور ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے گی تو ان کی لاگت بھی کم ہو جائے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ شروع میں ایک فلائنگ ٹیکسی کا کرایہ ایک لگژری ٹیکسی سروس یا کسی مہنگی کیب سروس کے برابر ہو سکتا ہے، لیکن مستقبل میں یہ عام ہو جائے گا۔ حکومت اور نجی کمپنیاں مل کر ایسی اسکیمیں بھی متعارف کرا سکتی ہیں جو عام لوگوں کے لیے بھی فلائنگ ٹیکسیوں کی رسائی ممکن بنائیں۔ یہ سب کے لیے ایک نیا خواب ہو گا، اور میں پر امید ہوں کہ جلد ہی یہ خواب حقیقت بن جائے گا۔
فلائنگ ٹیکسیوں کے فوائد اور چیلنجز
ہر نئی ٹیکنالوجی کی طرح، فلائنگ ٹیکسیوں کے بھی اپنے فوائد اور چیلنجز ہیں۔ جب میں نے اس موضوع پر تحقیق کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے فوائد اتنے زیادہ ہیں کہ چیلنجز پر قابو پانا اتنا مشکل نہیں ہو گا۔ بنیادی فوائد میں سب سے پہلے وقت کی بچت ہے، جو آج کی مصروف زندگی میں سب سے اہم ہے۔ کراچی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں، جبکہ فلائنگ ٹیکسی سے یہ سفر چند منٹوں میں طے ہو سکتا ہے۔ دوسرا بڑا فائدہ ماحولیاتی ہے، کیونکہ زیادہ تر eVTOL گاڑیاں بجلی سے چلتی ہیں، جس سے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ صاف ہوا میں سانس لینا اور شور سے پاک ماحول میں رہنا کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں گی جو شہری علاقوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن ہاں، چیلنجز بھی کم نہیں ہیں۔ حفاظت، بنیادی ڈھانچہ، ایئر ٹریفک کنٹرول، اور قانونی فریم ورک جیسے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ انسانی ingenuity ان تمام چیلنجز کا حل تلاش کر لے گی۔
وقت کی بچت اور ٹریفک کا خاتمہ
وقت، وقت اور صرف وقت! یہ سب سے بڑا فائدہ ہے جو فلائنگ ٹیکسیاں ہمیں دیں گی۔ سوچیں، آپ کو لاہور کے شاہدرہ سے ڈیفنس جانا ہے، اور آپ کو معلوم ہے کہ عام روڈ پر کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ فلائنگ ٹیکسی کے ذریعے یہ سفر ایک خوشگوار تجربے میں بدل جائے گا۔ میرے ایک دوست کا کہنا تھا کہ “وقت ہی پیسہ ہے” اور فلائنگ ٹیکسیاں ہمیں یہ پیسہ کمانے کا اضافی وقت دیں گی۔ کاروباری افراد کے لیے یہ خاص طور پر فائدہ مند ہو گا، جو میٹنگز کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جلدی پہنچ سکیں گے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو گا، جس سے عام ٹرانسپورٹ بھی بہتر ہو جائے گی۔ مجھے یاد ہے، ایک بار میں کراچی میں ایک ایمرجنسی میں پھنسا تھا اور ٹریفک کی وجہ سے بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکا۔ فلائنگ ٹیکسیاں ایسی صورتحال میں جان بچانے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا فائدہ ہے جس کا کوئی ثانی نہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔
حفاظت اور ضابطہ اخلاق: پرواز کو محفوظ بنانا
حفاظت سب سے اہم ہے۔ جب ہم اڑان بھرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ سوال سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ دنیا بھر کی ایوی ایشن ایجنسیاں اور کمپنیاں فلائنگ ٹیکسیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں۔ ان گاڑیوں میں متعدد سیفٹی سسٹمز نصب کیے جائیں گے، جن میں فالٹ ٹولرینٹ ڈیزائن، پیراشوٹ سسٹمز، اور جدید سینسرز شامل ہیں۔ ایئر ٹریفک کنٹرول کے لیے بھی نئے اور جدید نظام تیار کیے جا رہے ہیں تاکہ آسمان میں ٹریفک کو محفوظ طریقے سے منظم کیا جا سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سخت ضابطہ اخلاق اور لائسنسنگ کے طریقہ کار کو بھی اپنایا جائے گا تاکہ ہر پرواز محفوظ ہو۔ پائلٹس کی تربیت، گاڑیوں کی باقاعدہ دیکھ بھال، اور موسمی حالات کی مسلسل نگرانی، یہ سب فلائنگ ٹیکسیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہو گا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ روایتی زمینی ٹرانسپورٹ سے بھی زیادہ محفوظ ثابت ہو سکتی ہیں، کیونکہ آسمان میں رکاوٹیں نسبتاً کم ہوتی ہیں۔
دنیا بھر میں فلائنگ ٹیکسیوں کی دوڑ
یہ صرف پاکستان کی بات نہیں، دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں اس میدان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ایئربس، بوئنگ، ہیونڈائی اور اوبیرا جیسی کمپنیاں اس ریس میں شامل ہیں۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جنوبی کوریا، امریکہ، متحدہ عرب امارات اور یورپ کے کئی ممالک میں فلائنگ ٹیکسیوں کے ٹیسٹ فلائٹس کامیابی سے جاری ہیں۔ یہ کمپنیاں نہ صرف گاڑیوں کی ڈیزائننگ پر کام کر رہی ہیں بلکہ وہ ورٹی پورٹس (Vertiports) یعنی فلائنگ ٹیکسیوں کے لیے خاص ایئرپورٹس بنانے پر بھی توجہ دے رہی ہیں۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے جو تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں نے ایک ماہر سے سنا کہ آنے والے سالوں میں اس مارکیٹ کا حجم کھربوں ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ صرف نقل و حرکت کا ایک نیا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک بہت بڑی نئی صنعت ہے جو لاکھوں نوکریاں پیدا کرے گی اور معیشت کو فروغ دے گی۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی حد نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں نئے افق تک لے جائے گی۔
بڑی کمپنیاں اور ان کے انقلابی منصوبے
اس میدان میں کئی کمپنیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کے منصوبے واقعی حیرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر، “Joby Aviation” اور “Archer Aviation” جیسی کمپنیاں امریکہ میں پہلے ہی eVTOLs کے ٹیسٹ مکمل کر چکی ہیں اور جلد ہی اپنی کمرشل سروسز شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ دبئی نے تو 2026 تک فلائنگ ٹیکسیوں کو متعارف کرانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ یہ کمپنیاں صرف ٹیکسیاں نہیں بنا رہئیں بلکہ ایک مکمل ایکو سسٹم تیار کر رہی ہیں جس میں ٹیکسی اسٹینڈز، چارجنگ اسٹیشنز اور مینٹیننس ہبز شامل ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان کمپنیوں کے ڈیزائن کتنے جدید اور پرکشش ہیں، بالکل کسی مستقبل کی گاڑی کی طرح۔ مجھے ایک بات نے بہت متاثر کیا ہے کہ یہ کمپنیاں نہ صرف رفتار اور سہولت پر توجہ دے رہی ہیں بلکہ مسافروں کے تجربے کو بھی خوشگوار بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ فلائنگ ٹیکسی کے اندر بیٹھ کر شہر کا فضائی نظارہ کرنا کتنا شاندار ہو گا، یہ سوچ کر ہی دل مچل اٹھتا ہے۔
مستقبل کی اربن ایئر موبلٹی کا خاکہ
اربن ایئر موبلٹی (UAM) کا تصور صرف فلائنگ ٹیکسیوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر وژن ہے جس میں ڈرون ڈیلیوری، ہوائی ایمبولینسز، اور فضائی سیاحت جیسے بہت سے پہلو شامل ہیں۔ یہ ہمارے شہروں کو ایک نیا Dimension دے گا جہاں صرف زمین پر ہی نہیں بلکہ آسمان میں بھی نقل و حرکت ممکن ہو گی۔ میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا کہ عالمی سطح پر 2030 تک UAM مارکیٹ کئی سو ارب ڈالرز کی ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو ہمارے مستقبل کو نئی شکل دے گا۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں لاجسٹکس اور نقل و حرکت کے چیلنجز بہت زیادہ ہیں، UAM ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے شہروں کو سمارٹ اور جدید بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہو گا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ٹیکسی نہیں، یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے جہاں انسان کا سفر آسمانوں تک پہنچ جائے گا۔
فلائنگ ٹیکسیوں سے ہماری زندگی میں کیا بدلے گا؟
فلائنگ ٹیکسیاں صرف نقل و حرکت کا ایک نیا ذریعہ نہیں ہوں گی بلکہ یہ ہماری روزمرہ زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کریں گی۔ سب سے پہلے تو وقت کی بچت ہوگی، جو ہمیں اپنی فیملی اور دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع دے گی۔ مجھے یاد ہے کہ میں کئی بار دوستوں کی دعوت میں صرف ٹریفک کی وجہ سے نہیں جا سکا، لیکن فلائنگ ٹیکسیوں سے یہ مشکل حل ہو جائے گی۔ پھر یہ شہروں کے لے آؤٹ کو بھی بدل دیں گی؛ اب ہمیں شہروں کے کناروں پر رہائش اختیار کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ ہم کم وقت میں اپنے دفاتر تک پہنچ سکیں گے۔ اس سے شہروں میں بھیڑ بھاڑ کم ہو گی اور رہائش کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب آپ سفر میں آرام دہ اور مطمئن ہوتے ہیں تو آپ کا سارا دن اچھا گزرتا ہے۔ یہ فلائنگ ٹیکسیاں اسی آرام اور اطمینان کو ہماری زندگی کا حصہ بنائیں گی۔ یہ صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، یہ ہماری زندگی کی معیار کو بہتر بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔
کام اور کاروبار کے نئے مواقع
فلائنگ ٹیکسیوں کی آمد سے نئے کاروباری مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ سوچیں، ورٹی پورٹس کی تعمیر، ان کی دیکھ بھال، فلائنگ ٹیکسیوں کی مرمت، پائلٹس کی تربیت، ایئر ٹریفک کنٹرولرز – یہ سب ہزاروں نوکریاں پیدا کریں گے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے لیے یہ ایک بہت بڑا میدان ہو گا جہاں وہ اپنی مہارتوں کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ نئی کمپنیوں کے قیام اور سرمایہ کاری کے نئے راستے کھلیں گے۔ یہ ہماری معیشت کو ایک نئی تحریک دے گا۔ میں نے ایک ماہر اقتصادیات سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ فلائنگ ٹیکسی انڈسٹری اگلے چند دہائیوں میں کئی لاکھ کروڑ روپے کی انڈسٹری بن جائے گی، جس سے عالمی سطح پر اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا۔ یہ صرف چند کمپنیوں کا فائدہ نہیں، یہ ایک اجتماعی ترقی کا راستہ ہے جو سب کے لیے فوائد لائے گا۔ میں تو بہت پرجوش ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے ملک میں کون کون سے نوجوان اس میدان میں آگے بڑھ کر اپنا نام روشن کریں گے۔

فضائی سفر کا نیا دور
ہمیشہ سے انسان کا خواب رہا ہے کہ وہ پرندوں کی طرح آزادانہ اڑ سکے۔ فلائنگ ٹیکسیاں اس خواب کو عملی شکل دیں گی۔ یہ ہمیں ایک نیا تناظر دیں گی جہاں ہم اپنے شہروں کو آسمان سے دیکھ سکیں گے۔ یہ محض ایک سفر نہیں، یہ ایک تجربہ ہو گا۔ مجھے ذاتی طور پر اونچائی سے نظارے کرنا بہت پسند ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ فلائنگ ٹیکسی میں بیٹھ کر رات کے وقت لاہور یا کراچی کا نظارہ کرنا ایک ناقابل فراموش تجربہ ہو گا۔ یہ فضائی سفر کا ایک نیا دور ہو گا جہاں ہر کوئی اس تجربے سے لطف اندوز ہو سکے گا۔ یہ سیاحت کے شعبے کو بھی فروغ دے گا، کیونکہ لوگ نئے مقامات اور شہروں کو فضائی راستے سے دیکھنا پسند کریں گے۔ یہ ہمارے لیے ایک ایڈونچر سے کم نہیں ہو گا اور مجھے تو یہ سوچ کر ہی گدگدی ہونے لگتی ہے کہ میں کب پہلی بار فلائنگ ٹیکسی میں اڑان بھروں گا۔
آپ کے شہر میں فلائنگ ٹیکسی کا تجربہ کب؟
تو اب سب سے اہم سوال: آپ کب تک اپنے شہر میں فلائنگ ٹیکسی کا تجربہ کر سکیں گے؟ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ یہ “کب” اب زیادہ دور نہیں۔ دنیا بھر کی کمپنیاں 2025 سے 2030 کے درمیان اپنی کمرشل سروسز شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ دبئی جیسے شہر تو اگلے دو سالوں میں ہی یہ سہولت متعارف کرانے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی، اگرچہ تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگلے 5 سے 7 سالوں میں ہم کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں فلائنگ ٹیکسیوں کو دیکھنا شروع کر دیں گے۔ اس کے لیے یقیناً حکومت کی حمایت، نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور عوام کی قبولیت بہت ضروری ہو گی۔ مجھے امید ہے کہ ہماری حکومت اس موقع کو سمجھے گی اور اس نئی ٹیکنالوجی کو ملک میں لانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ یہ صرف ایک نقل و حمل کا ذریعہ نہیں، یہ ہمارے ملک کی ترقی اور جدیدیت کی علامت بنے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس کی آمد کا بے صبری سے انتظار ہے۔
عالمی پیش رفت اور علاقائی امکانات
عالمی سطح پر فلائنگ ٹیکسیوں کی ترقی بہت تیز رفتاری سے جاری ہے۔ مختلف ممالک اپنے اپنے قوانین اور بنیادی ڈھانچے کو اس نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ مجھے ایک بات نے بہت متاثر کیا کہ کئی ایشیائی ممالک بھی اس میں بہت آگے ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور، اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اس کے لیے بہترین مثالیں ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے مسائل کو دیکھتے ہوئے، فلائنگ ٹیکسیاں ایک بہترین حل ثابت ہو سکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے بروقت اقدامات کیے تو ہم بھی اس عالمی تبدیلی کا حصہ بن سکتے ہیں اور اپنے شہروں کو جدید اور سمارٹ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جسے ہمیں گنوانا نہیں چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا سرمایہ کاری کا شعبہ بھی ہو گا جو آنے والے وقتوں میں ہمارے ملک میں خوشحالی لائے گا۔
فلائنگ ٹیکسیوں کو قریب سے جاننے کا موقع
آپ سب اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید معلومات کے لیے عالمی فورمز اور تکنیکی رپورٹس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ میں خود بھی اس پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہوں اور جیسے ہی کوئی نئی پیش رفت ہوتی ہے، آپ کو ضرور بتاؤں گا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو قریب سے جاننا اور اس کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم سب کو ایک ایسے مستقبل کے لیے تیار رہنا چاہیے جہاں آسمان ہمارا نیا راستہ ہو۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے برسوں پہلے جب انٹرنیٹ نیا نیا آیا تھا، تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ہماری زندگی کو اس قدر بدل دے گا۔ فلائنگ ٹیکسیاں بھی کچھ ایسی ہی انقلابی تبدیلی لانے والی ہیں۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی دلچسپ سفر ہے جس میں ہم سب شریک ہوں گے، اور میں آپ کو اس سفر میں اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ہمیشہ پرجوش رہوں گا۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں!
| پہلو | روایتی زمینی ٹرانسپورٹ | فلائنگ ٹیکسی (eVTOL) |
|---|---|---|
| وقت کی بچت | ٹریفک کی وجہ سے زیادہ وقت لگتا ہے | بہت کم وقت میں منزل تک رسائی |
| ماحولیاتی اثرات | فضائی اور صوتی آلودگی کا باعث | کم کاربن اور کم شور والی (اکثر الیکٹرک) |
| سفر کا آرام | ٹریفک جام اور جھٹکے | ہموار اور آرام دہ فضائی سفر |
| حفاظت | حادثات کا زیادہ امکان | جدید سیفٹی فیچرز کے ساتھ محفوظ تصور |
| بنیادی ڈھانچہ | سڑکوں اور پلوں کی ضرورت | ورٹی پورٹس اور فضائی راستوں کی ضرورت |
| لاگت (ابتدائی) | عام لوگوں کے لیے قابل رسائی | شروع میں مہنگی، وقت کے ساتھ سستی ہو گی |
گل کو الوداع
میرے پیارے پڑھنے والو! فلائنگ ٹیکسیوں کا یہ تصور، جو کبھی محض ایک خواب تھا، اب ہماری آنکھوں کے سامنے حقیقت بننے جا رہا ہے۔ میں نے اس ساری تحقیق کے بعد محسوس کیا ہے کہ یہ صرف سفر کا ایک ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایک نیا طرز زندگی ہے جو ہمارے وقت کو قیمتی بنائے گا اور شہروں کی رونقوں کو آسمان تک لے جائے گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان میں بھی جلد از جلد قدم جمائے گی اور ہم سب اس فضائی انقلاب کا حصہ بنیں گے۔ یہ سوچ کر ہی دل خوش ہو جاتا ہے کہ ہمارے بچے ایک ایسے دور میں جیئیں گے جہاں سفر کی صعوبتیں ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔ اپنا خیال رکھیے اور اس نئے سفر کے لیے تیار رہیے۔
آپ کے لیے کام کی باتیں
1. فلائنگ ٹیکسیاں (eVTOL) بیٹری سے چلنے والی چھوٹی گاڑیاں ہیں جو ہیلی کاپٹر کی طرح عمودی طور پر اڑتی اور اترتی ہیں۔
2. یہ شہروں میں ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے، وقت بچانے اور فضائی آلودگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
3. دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں اور ممالک اس ٹیکنالوجی پر اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور جلد ہی کمرشل سروسز شروع ہونے والی ہیں۔
4. ابتدائی طور پر ان کی لاگت زیادہ ہو سکتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ عام لوگوں کی پہنچ میں آ جائیں گی۔
5. حفاظت، بنیادی ڈھانچہ اور مناسب قوانین اس ٹیکنالوجی کی کامیابی کے لیے انتہائی ضروری ہیں، جن پر عالمی سطح پر کام ہو رہا ہے۔
ضروری نکات
فلائنگ ٹیکسیوں کا دور اب دور نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی وقت کی بچت، ماحول دوست سفر اور شہری زندگی میں انقلاب لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اگرچہ حفاظتی خدشات اور بنیادی ڈھانچے کے چیلنجز موجود ہیں، لیکن عالمی سطح پر تیزی سے ہونے والی پیش رفت بتاتی ہے کہ یہ جلد ہی ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، یہ ٹریفک کے مسائل کا ایک اہم حل اور معاشی ترقی کا نیا راستہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم سب کو اس مستقبل کے لیے تیار رہنا چاہیے جہاں آسمان میں ہماری اپنی سواریاں موجود ہوں گی۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: فلائنگ ٹیکسیاں ہماری سڑکوں پر نہیں بلکہ آسمانوں پر کب نظر آئیں گی؟
ج: یہ سوال تو ہر کسی کے ذہن میں ہے، اور یقین مانیں، یہ انتظار اب زیادہ لمبا نہیں ہے۔ دبئی میں ایک کمپنی کی جانب سے 2025 میں ابتدائی آپریشن شروع کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے جبکہ کمرشل سروس 2025 کے آخر تک صارفین کو دستیاب ہو گی۔ یعنی اگلے سال کے آخر تک ہمیں باقاعدہ فلائنگ ٹیکسیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار سمارٹ فونز آئے تھے، تو لوگ کہتے تھے کہ یہ کب عام ہوں گے، اور آج دیکھیں، ہر ہاتھ میں ہے۔ بالکل اسی طرح، فلائنگ ٹیکسیاں بھی بہت تیزی سے ہماری زندگی کا حصہ بنیں گی۔ اوبر جیسی کمپنیاں بھی اس پر کام کر رہی ہیں، اور انہوں نے آسٹریلیا کو اپنا پہلا عالمی مارکیٹ قرار دیا ہے۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ اگلے 5 سے 10 سالوں میں ہمارے بڑے شہروں میں ان کا استعمال کافی حد تک عام ہو جائے گا، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں جہاں ٹریفک کا برا حال رہتا ہے۔
س: فلائنگ ٹیکسیاں ہماری روزمرہ کی زندگی کو کس طرح بدل دیں گی اور ان کے اہم فوائد کیا ہیں؟
ج: ارے بھائی! یہ تو گیم چینجر ثابت ہوں گی۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ آپ کا وقت بچے گا۔ سوچیں، جو سفر گھنٹوں کا ہوتا ہے، وہ منٹوں میں طے ہو جائے گا۔ اوبر کا کہنا ہے کہ میلبورن میں 19 کلومیٹر کا سفر جو زمین پر گاڑی میں ایک گھنٹہ لیتا ہے، فلائنگ ٹیکسی سے صرف 10 منٹ میں طے ہو سکے گا۔ یہ صرف وقت بچانے والی بات نہیں، بلکہ اس سے ٹریفک جام کا مسئلہ بھی حل ہو گا جس سے ہم سب پریشان رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ بجلی سے چلیں گی، جس کا مطلب ہے کہ شہروں میں آلودگی کم ہو گی اور ہمارا ماحول صاف ستھرا رہے گا۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے آنے کے بعد ہم بہت سے کام زیادہ آرام سے کر سکیں گے اور زندگی میں ایک نئی سہولت آ جائے گی۔ آپ کو محسوس ہو گا جیسے آپ کا اپنا ذاتی طیارہ ہے جو آپ کو جہاں چاہے لے جائے۔
س: کیا فلائنگ ٹیکسیوں کا استعمال محفوظ ہوگا اور ان سے متعلقہ کیا چیلنجز ہیں؟
ج: حفاظت کا سوال تو بہت اہم ہے اور واقعی، کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپناتے وقت یہ خدشہ سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ لیکن میرے دوستو، دنیا بھر کے انجینئرز اور ماہرین اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ ایوی ایشن کے سخت قواعد و ضوابط ہیں جن پر عمل درآمد ضروری ہو گا۔ چیلنجز میں سب سے پہلے تو بنیادی ڈھانچے کا مسئلہ ہے، یعنی ان کے لیے ٹیک آف اور لینڈنگ کے لیے مخصوص جگہیں (جنہیں ورٹی پورٹس کہتے ہیں) بنانا پڑیں گی۔ اس کے علاوہ، آسمان میں ٹریفک کو کنٹرول کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا، تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو۔ پھر ان کی لاگت بھی ایک اہم فیکٹر ہے؛ شروع میں یہ مہنگی ہوں گی، لیکن جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرے گی اور پیداوار بڑھے گی، ان کی قیمتیں بھی کم ہوں گی اور یہ عام آدمی کی پہنچ میں آ سکیں گی۔ دبئی حکومت کی جانب سے فلائنگ ٹیکسی سروس کے آغاز پر مالی نقصان کا خطرہ کم کرنے اور ریگولیٹری رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام چیلنجز پر قابو پا لیا جائے گا، کیونکہ انسان نے ہمیشہ ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔






