دوستو، ذرا سوچیں! آج کل پیٹرول کی قیمتیں، اوپر سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ، دل کو پریشان کر دیتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری گاڑیاں سڑکوں پر دوڑیں، لیکن ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کاش کوئی ایسی گاڑی ہوتی جو دھواں نہ چھوڑے اور ایک ہی بار بھرنے پر میلوں کا سفر طے کر لے؟مجھے یاد ہے جب پہلی بار ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کے بارے میں پڑھا تو لگا جیسے کوئی سائنس فکشن فلم دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یقین مانیں، یہ محض خواب نہیں بلکہ ایک شاندار حقیقت بنتا جا رہا ہے!
یہ کوئی عام بیٹری والی گاڑی نہیں بلکہ ایک بالکل ہی مختلف اور انقلابی ٹیکنالوجی ہے جہاں ہائیڈروجن گیس کی مدد سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور صرف پانی کے بخارات خارج ہوتے ہیں۔ یہ سننے میں کتنا دلکش لگتا ہے، ہے نا؟ اپنی گاڑی میں بس چند منٹوں میں ایندھن بھروائیں اور بھول جائیں چارجنگ کی فکر۔ لمبی مسافتیں بھی اب کوئی مسئلہ نہیں۔میں نے خود بہت تحقیق کی ہے اور دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ جاپان سے لے کر سعودی عرب تک، ہر کوئی اس صاف اور پائیدار توانائی کے مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے، جہاں ہائیڈروجن نہ صرف گاڑیوں بلکہ صنعتوں کو بھی نیا رخ دے گا۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کیا یہ سب عملی ہے اور کیا اس کا انفراسٹرکچر بھی تیار ہو رہا ہے؟ تو بس یہ سمجھ لیں کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور ہائیڈروجن فیول سیل ٹیکنالوجی اس تبدیلی کی سب سے اہم کڑی ہے۔آئیے، آج ہم اسی ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں اور ان کی بیٹریوں (یا یوں کہوں کہ ان کے ایندھن سیل سسٹمز) کے پیچھے چھپے رازوں کو، ان کے فوائد، اور مستقبل میں یہ ہماری زندگیوں کو کیسے بدل سکتے ہیں، اسے تفصیل سے جانتے ہیں۔ یقین دلاتا ہوں، یہ معلومات آپ کے ذہن کے دریچے کھول دے گی۔
ہائیڈروجن گاڑیاں: یہ جادو کیسے کام کرتا ہے؟

دوستو! جب میں پہلی بار ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں تفصیل سے پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کسی سائنس فکشن فلم کا منظر ہے۔ یہ سوچ کر ہی دل خوش ہوتا تھا کہ میری گاڑی صرف پانی کے بخارات چھوڑے گی اور ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ تو بھائیوں، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہائیڈروجن گاڑیاں محض بیٹری والی گاڑیاں نہیں ہوتیں۔ ان کا کام کرنے کا طریقہ بالکل مختلف اور زیادہ دلچسپ ہے۔ یہ گاڑیاں بنیادی طور پر ایک ‘فیول سیل’ سسٹم پر کام کرتی ہیں۔ اس سسٹم میں ہائیڈروجن گیس اور ہوا سے لی گئی آکسیجن کو ایک خاص کیمیائی عمل سے گزارا جاتا ہے، جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بجلی پھر گاڑی کی الیکٹرک موٹر کو چلاتی ہے اور گاڑی سڑکوں پر دوڑنے لگتی ہے۔ سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں صرف اور صرف پانی کے بخارات ہی خارج ہوتے ہیں، جو ماحول کے لیے بالکل بے ضرر ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک ڈاکیومینٹری میں یہ عمل دیکھا تو میں دنگ رہ گیا تھا کہ قدرت کے اس نایاب عنصر کو ہم کس قدر ذہانت سے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو نہ صرف آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا ہے بلکہ آپ کے سفر کو ماحول کے لیے ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی صرف نقل و حمل کے شعبے میں ہی نہیں بلکہ توانائی کے مستقبل میں بھی ایک گیم چینجر ثابت ہو رہی ہے۔
ہائیڈروجن فیول سیل کا اندرونی نظام
دراصل، ہائیڈروجن فیول سیل کا دل اس کے اندر موجود اینوڈ، کیتھوڈ اور ایک الیکٹرولائٹ ممبرین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہائیڈروجن گیس اینوڈ پر آتی ہے جہاں اس کے الیکٹران اور پروٹان الگ ہو جاتے ہیں۔ الیکٹران ایک بیرونی سرکٹ سے گزر کر بجلی پیدا کرتے ہیں جو گاڑی کی موٹر کو طاقت دیتی ہے، جبکہ پروٹان الیکٹرولائٹ ممبرین سے گزر کر کیتھوڈ تک پہنچتے ہیں۔ کیتھوڈ پر یہ پروٹان، الیکٹران اور ہوا سے لی گئی آکسیجن آپس میں مل کر پانی بناتے ہیں۔ یہ عمل مسلسل ہوتا رہتا ہے جب تک کہ ہائیڈروجن کی سپلائی موجود رہے۔ یہ بالکل ایک چھوٹی بجلی کی فیکٹری کی طرح ہے جو آپ کی گاڑی میں لگی ہوتی ہے! میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ نظام عام بیٹریوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں بیٹری کے وزن اور ان کے ماحولیاتی اثرات کا کوئی جھنجٹ نہیں۔ آپ کو بار بار چارجنگ سٹیشن ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔
روایتی ایندھن بھرنے جیسا آسان تجربہ
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ہائیڈروجن بھرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا پیٹرول یا ڈیزل بھرنا؟ تو میرا جواب ہے، جی ہاں، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ سے بھی زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ میں نے ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ ہائیڈروجن کو چند منٹوں میں گاڑی میں بھر لیا جاتا ہے، بالکل جیسے ہم اپنی گاڑی میں پیٹرول بھرواتے ہیں۔ یہ اس ٹیکنالوجی کا ایک بہت بڑا فائدہ ہے کیونکہ لمبی مسافتوں کے سفر میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کا انتظار کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کے ساتھ آپ کو یہ مسئلہ پیش نہیں آتا۔ ایک بار ایندھن بھروائیں اور میلوں کا سفر بلا جھجھک طے کریں۔ یہ سہولت مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب ہمارے اپنے ملک میں بھی ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کا جال بچھ جائے گا۔
روایتی گاڑیوں اور الیکٹرک کاروں سے بہترین کیوں؟
جب ہم نئی گاڑی خریدنے کا سوچتے ہیں تو ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں۔ پیٹرول کی کھپت، ماحولیاتی آلودگی، اور اب الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کا وقت۔ ہائیڈروجن گاڑیاں ان تمام مسائل کا ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ایک دوست سے ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں بات کی تو اس کا پہلا سوال تھا “بھائی، اس میں بیٹری نہیں ہوتی؟” میں نے اسے سمجھایا کہ یہ بالکل مختلف ٹیکنالوجی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ گاڑیاں زیرو ایمیشن کرتی ہیں، یعنی ماحول کو بالکل آلودہ نہیں کرتیں۔ جہاں پیٹرول کی گاڑیاں دھواں چھوڑتی ہیں اور الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کی تیاری اور ان کی ڈسپوزل کے بھی اپنے ماحولیاتی مسائل ہیں، وہیں ہائیڈروجن گاڑیاں صرف صاف پانی کے بخارات خارج کرتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف ستھرا ماحول یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، الیکٹرک گاڑیوں کی طرح گھنٹوں چارجنگ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ آپ چند منٹوں میں اپنی ہائیڈروجن گاڑی میں ایندھن بھرواتے ہیں اور سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ یہ آسانی اور رفتار مجھے کسی بھی روایتی یا الیکٹرک گاڑی میں نظر نہیں آتی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہم سب اس ٹیکنالوجی کو اپنا لیں تو ہمارے شہروں کی ہوا کتنی صاف ہو جائے گی!
فوری ایندھن بھرنا بمقابلہ طویل چارجنگ
یقین کریں، یہ ایک ایسا نقطہ ہے جو مجھے ذاتی طور پر ہائیڈروجن گاڑیوں کی طرف سب سے زیادہ راغب کرتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مکمل چارج ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، خاص طور پر اگر آپ طویل سفر پر ہوں۔ راستے میں چارجنگ سٹیشنز پر انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ کبھی کبھی بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائیڈروجن گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کا عمل پیٹرول بھرنے کے برابر ہوتا ہے، یعنی صرف 3 سے 5 منٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی منزل تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ سکتے ہیں اور راستے میں وقت ضائع ہونے کی فکر نہیں ہوگی۔ یہ آسانی، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو لمبی ڈرائیو پر نکلتے ہیں یا اپنی گاڑی کو روزانہ زیادہ استعمال کرتے ہیں، ایک نعمت سے کم نہیں۔ میں نے کئی بار سوچا ہے کہ کاش میرے پاس بھی ایک ہائیڈروجن گاڑی ہوتی تو میں ہر ویک اینڈ پر بغیر کسی ٹینشن کے پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل جاتا۔
کم وزن اور زیادہ رینج
ایک اور اہم بات جو ہائیڈروجن گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا وزن ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں بڑی اور بھاری بیٹریاں ہوتی ہیں جو گاڑی کا وزن بڑھا دیتی ہیں اور اس کی پرفارمنس پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، ہائیڈروجن فیول سیل سسٹم نسبتاً ہلکا ہوتا ہے، جس سے گاڑی کا مجموعی وزن کم رہتا ہے۔ کم وزن کا مطلب ہے بہتر فیول اکانومی اور زیادہ رینج۔ آپ ایک بار ہائیڈروجن بھروا کر 400 سے 600 کلومیٹر تک کا سفر آسانی سے طے کر سکتے ہیں، جو کہ کئی الیکٹرک گاڑیوں کی رینج سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ہائیڈروجن گاڑیوں کو نہ صرف ماحولیاتی نقطہ نظر سے بلکہ عملی استعمال کے لحاظ سے بھی ایک بہترین انتخاب بناتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فیچر کو لوگ بہت پسند کریں گے کیونکہ بھاری بیٹریاں نہ صرف گاڑی کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ان کی تیاری اور ڈسپوزل بھی ایک بڑا ماحولیاتی چیلنج ہے۔
ہائیڈروجن انفراسٹرکچر: کیا ہم تیار ہیں؟
جیسے ہی ہم کسی نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا اس کا انفراسٹرکچر موجود ہے؟ مجھے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہائیڈروجن گاڑیاں اتنی اچھی ہیں تو سڑکوں پر نظر کیوں نہیں آتیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کی کمی ہے۔ لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ دنیا بھر میں اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، جرمنی، اور کیلیفورنیا جیسے علاقوں میں ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کا جال بچھایا جا رہا ہے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ابتدائی دنوں میں پیٹرول پمپس کم تھے یا پھر جب الیکٹرک گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں تو چارجنگ سٹیشنز ڈھونڈنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسائل حل ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی صاف توانائی کے اس سفر میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے یہ ممکن ہے کہ ہم بھی جلد ہی ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز اپنی سڑکوں پر دیکھ سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اس جانب جلد توجہ دے گی تاکہ ہماری عوام بھی اس بہترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکے۔
عالمی سطح پر پیشرفت
عالمی سطح پر ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ جاپان نے “ہائیڈروجن سوسائٹی” کا تصور پیش کیا ہے جہاں نہ صرف گاڑیاں بلکہ گھروں اور صنعتوں کو بھی ہائیڈروجن توانائی سے چلایا جائے گا۔ جنوبی کوریا نے بھی ہائیڈروجن معیشت کے لیے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔ یہ ممالک ہائیڈروجن کی پیداوار، ترسیل اور فیولنگ سٹیشنز کے نیٹ ورک کو وسعت دینے پر کام کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ہائیڈروجن کونسل جیسے ادارے اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ یہ تمام کوششیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مستقبل ہائیڈروجن کا ہے اور یہ محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بننے جا رہا ہے۔ میں خود کو اس وقت بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اس دور کا حصہ ہوں جہاں اتنی انقلابی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور ہم سب ان کے گواہ بن رہے ہیں۔
مقامی چیلنجز اور حل
ہمارے جیسے ملکوں میں ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کی تعمیر کے کچھ اپنے چیلنجز ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ہائیڈروجن گیس کی محفوظ پیداوار اور اس کی ٹرانسپورٹیشن۔ اس کے لیے مناسب ٹیکنالوجی اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسرے نمبر پر، فیولنگ سٹیشنز کے لیے زیادہ سرمایہ کاری اور زمین کی دستیابی کا مسئلہ۔ لیکن یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جن کا حل نہ ہو۔ نجی اور سرکاری شراکت داری (PPP) کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر بڑے شہروں میں فیولنگ سٹیشنز قائم کیے جا سکتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا دائرہ کار بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، مقامی طور پر ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی، کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ پیداواری لاگت کم ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا موقع ہے جہاں ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں اور ایک صاف ستھرا مستقبل بنا سکتے ہیں۔
حفاظت کے تقاضے: کیا ہائیڈروجن خطرناک ہے؟
جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو لوگ اس کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر بات کسی گیس کی ہو تو خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں پڑھا تو میرے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی سوال آیا تھا کہ کیا یہ خطرناک ہے؟ لیکن تحقیق کرنے کے بعد مجھے یہ جان کر بہت تسلی ہوئی کہ ہائیڈروجن گاڑیوں میں حفاظت کے بہت سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ہائیڈروجن گیس کو انتہائی مضبوط ٹینکس میں محفوظ کیا جاتا ہے جو حادثے کی صورت میں بھی گیس کو لیک ہونے سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ یہ ٹینکس اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انہیں گولی مارنے یا انتہائی دباؤ میں رکھنے پر بھی ان سے گیس لیک نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن گیس ہوا سے ہلکی ہوتی ہے، اس لیے اگر کسی وجہ سے یہ لیک ہو بھی جائے تو یہ فوراً فضا میں بلند ہو جاتی ہے اور کسی ایک جگہ جمع نہیں ہوتی، جس سے آگ لگنے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بہت اہم حفاظتی فیچر ہے جو اسے پیٹرول سے بھی زیادہ محفوظ بناتا ہے کیونکہ پیٹرول لیک ہونے پر زمین پر پھیل جاتا ہے اور آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ وہ بات ہے جسے عام لوگوں تک پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ ان کے خدشات دور ہو سکیں۔
حادثاتی صورتحال میں ہائیڈروجن کی خصوصیات
ہمارے انجینئرز نے ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے کہ وہ انتہائی سخت حفاظتی معیار پر پورا اتریں۔ حادثے کی صورت میں ہائیڈروجن ٹینکس میں خاص والوز لگے ہوتے ہیں جو زیادہ درجہ حرارت یا دباؤ کی صورت میں گیس کو محفوظ طریقے سے خارج کر دیتے ہیں تاکہ ٹینک پھٹنے کا خطرہ نہ ہو۔ چونکہ ہائیڈروجن ہوا سے بہت تیزی سے اوپر کی طرف جاتی ہے، اس لیے لیک ہونے پر بھی یہ تیزی سے ماحول میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، پیٹرول یا ڈیزل لیک ہونے پر زمین پر یا گاڑی کے ارد گرد پھیل جاتے ہیں جو آگ لگنے یا دھماکے کا سبب بن سکتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت سکون ملا کہ جدید ہائیڈروجن گاڑیاں پیٹرول گاڑیوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ، ان گاڑیوں میں ایڈوانسڈ سینسرز بھی لگے ہوتے ہیں جو کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں گیس کے بہاؤ کو فوراً روک دیتے ہیں۔ یہ سب انجینئرنگ کی شاندار مثالیں ہیں جو ہمیں ایک محفوظ سفر فراہم کرتی ہیں۔
عالمی حفاظتی معیار اور ٹیسٹنگ
ہائیڈروجن گاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر بہت سخت ٹیسٹنگ اور معیار مقرر کیے گئے ہیں۔ یورپی یونین، امریکہ اور جاپان میں ہائیڈروجن گاڑیوں کو بازار میں لانے سے پہلے کئی سخت ٹیسٹوں سے گزارا جاتا ہے۔ ان ٹیسٹوں میں حادثاتی ٹیسٹ، آگ کے ٹیسٹ اور زیادہ درجہ حرارت اور دباؤ کی صورتحال میں ٹینکوں کی کارکردگی کی جانچ شامل ہے۔ ان تمام ٹیسٹوں کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ہائیڈروجن گاڑیاں ہر لحاظ سے محفوظ ہوں۔ کئی کار ساز کمپنیاں اپنی ہائیڈروجن گاڑیوں کی کریش ٹیسٹنگ کرواتی ہیں اور انہیں بہترین حفاظتی ریٹنگز حاصل ہوتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے سے پہلے اس کی حفاظت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے، اور ہائیڈروجن گاڑیوں کے معاملے میں، میں پوری تسلی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ محفوظ ہیں۔
جیب پر بوجھ اور مستقبل کی بچت
دوستو! جب بھی ہم نئی ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں تو لاگت کا سوال ضرور آتا ہے، خاص طور پر اگر وہ ٹیکنالوجی ماحول دوست بھی ہو۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ہائیڈروجن گاڑیوں کی قیمتیں دیکھیں تو تھوڑا حیران ہوا تھا، کیونکہ یہ روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں قدرے مہنگی ہوتی ہیں۔ لیکن پھر میں نے اس کے طویل مدتی فوائد اور بچت کے بارے میں سوچا۔ آج کل پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اور پیٹرول کی مد میں ہماری جیب سے اچھا خاصا پیسہ نکل جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کی قیمتیں، اگرچہ ابھی کچھ زیادہ ہیں، لیکن جیسے جیسے پیداوار بڑھے گی اور انفراسٹرکچر بہتر ہوگا، ان کی قیمتیں بھی کم ہوتی جائیں گی۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کی دیکھ بھال کا خرچ بھی نسبتاً کم ہوتا ہے کیونکہ ان میں کم حرکت پذیر پرزے ہوتے ہیں اور انجن آئل وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سب طویل مدتی بچت کا باعث بنتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا سرمایہ کاری ہے جو نہ صرف آپ کی جیب کے لیے بہتر ہے بلکہ ہمارے سیارے کے لیے بھی۔ حکومت کی جانب سے سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ بھی ان گاڑیوں کو مزید پرکشش بنا سکتی ہے۔
ابتدائی سرمایہ کاری بمقابلہ طویل مدتی بچت
یہ سچ ہے کہ ہائیڈروجن گاڑی خریدنے کی ابتدائی لاگت تھوڑی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر نئی اور ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں صرف موجودہ قیمت کو نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ مستقبل کی بچت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ پیٹرول کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جبکہ ہائیڈروجن کی پیداوار کے طریقے جیسے جیسے بہتر ہوں گے، اس کی قیمتیں بھی کم ہوتی جائیں گی۔ ایک بار جب آپ ہائیڈروجن گاڑی خرید لیتے ہیں، تو آپ کو پیٹرول کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن فیول سیل سسٹم کی زندگی بھی کافی لمبی ہوتی ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ 5 سے 7 سال کے عرصے میں آپ اپنی ابتدائی زیادہ لاگت کو بچت کی صورت میں واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک سمجھدار سرمایہ کاری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ماحول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی جیب کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔
حکومتی مراعات اور مستقبل کے امکانات
دنیا بھر میں حکومتیں ہائیڈروجن گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے مختلف مراعات پیش کر رہی ہیں۔ کچھ ممالک میں ان گاڑیوں پر ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے، جبکہ کچھ جگہوں پر ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کی تعمیر کے لیے سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ان مراعات کا مقصد لوگوں کو اس ٹیکنالوجی کی طرف راغب کرنا اور اس کے پھیلاؤ کو تیز کرنا ہے۔ میرے خیال میں ہماری حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور ہائیڈروجن گاڑیوں کے خریداروں کے لیے کچھ خاص پیکیجز کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف لوگ اس ماحول دوست ٹیکنالوجی کو اپنائیں گے بلکہ ملک میں صاف توانائی کے شعبے کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ ایک win-win صورتحال ہے جہاں حکومت، عوام اور ماحول سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب میں بھی اپنی ہائیڈروجن گاڑی خرید سکوں اور اس صاف ستھرے سفر کا حصہ بن سکوں۔
عالمی رجحانات اور پاکستان کے لیے امکانات
دوستو! دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور توانائی کے شعبے میں ہر روز نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہائیڈروجن فیول سیل ٹیکنالوجی اب صرف تجرباتی مرحلے میں نہیں رہی بلکہ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، امریکہ اور یورپی ممالک اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر اپنا رہے ہیں اور اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہائیڈروجن کو ایک اہم ذریعہ بنا رہے ہیں۔ وہ صرف ہائیڈروجن گاڑیاں نہیں بلکہ ہائیڈروجن سے چلنے والی بسیں، ٹرینیں اور حتیٰ کہ بجلی کے پلانٹس بھی تیار کر رہے ہیں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مستقبل ہائیڈروجن کا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان بھی اس عالمی رجحان کا حصہ بن سکتا ہے؟ میرا جواب ہے، جی ہاں، بالکل! پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی، کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے، جنہیں استعمال کر کے “گرین ہائیڈروجن” پیدا کی جا سکتی ہے۔ گرین ہائیڈروجن وہ ہے جو ماحول دوست طریقوں سے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ ہم اپنی توانائی کی درآمدات پر انحصار کم کریں اور ایک صاف ستھری اور پائیدار توانائی کا نظام قائم کریں۔
دنیا کی بڑی کمپنیاں ہائیڈروجن کی طرف
مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں جیسے ٹویوٹا، ہنڈائی اور ہونڈا ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کی تیاری میں پیش پیش ہیں۔ ان کمپنیوں نے ہائیڈروجن گاڑیوں کے کئی ماڈلز کامیابی سے لانچ کیے ہیں جو سڑکوں پر چل رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی قابل اعتماد اور عملی ہے۔ اس کے علاوہ، بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹیشن کے لیے بھی ہائیڈروجن بسیں اور ٹرک تیار کیے جا رہے ہیں جو شہروں کی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کمپنیاں صرف گاڑیاں نہیں بنا رہی بلکہ ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل خوش ہو جاتا ہے کہ ہم ایک ایسے روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہمیں پیٹرول کے دھوئیں سے نجات مل جائے گی۔
پاکستان کے لیے سنہری موقع
پاکستان کے لیے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔ ہم توانائی کی کمی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کرنے سے ہم ان دونوں مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس شمسی اور ہوا کی توانائی کے وافر وسائل موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے سستی اور ماحول دوست ہائیڈروجن پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، صنعتوں کو بھی ہائیڈروجن پر منتقل کر کے ہم اپنے کاربن کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں۔ حکومت کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینی چاہیے اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ پاکستان عالمی سطح پر صاف توانائی کے میدان میں ایک اہم کھلاڑی بن کر ابھر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم آج اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں گے تو شاید آئندہ کئی سالوں تک پچھتائیں گے۔
میرے ذاتی تجربات اور سوچ
دوستو! مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار ہائیڈروجن گاڑی کے بارے میں ایک کانفرنس میں سنا تو مجھے لگا کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے۔ لیکن جیسے جیسے میں نے اس پر تحقیق کی اور دنیا بھر میں اس کی ترقی کو دیکھا تو میرا نظریہ بالکل بدل گیا۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اس بلاگ کے ذریعے آپ سب کو اس انقلابی ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ مجھے ایک بار ہائیڈروجن سے چلنے والی ایک بس میں سفر کرنے کا موقع ملا، حالانکہ وہ میرے ملک میں نہیں تھی لیکن یہ تجربہ میرے لیے ناقابل فراموش تھا۔ بس بالکل خاموشی سے چل رہی تھی اور کوئی دھواں یا شور نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا جیسے میں مستقبل میں سفر کر رہا ہوں۔ یہ تجربہ مجھے اس بات پر پختہ یقین دلاتا ہے کہ ہائیڈروجن ہی ہمارے نقل و حمل کا مستقبل ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جلد ہی ہمارے شہروں میں بھی ایسی گاڑیاں اور بسیں سڑکوں پر دوڑیں گی اور ہم سب اس صاف ستھرے سفر کا حصہ بن سکیں گے۔ میں نے تو اپنی اگلی گاڑی کے لیے ابھی سے ہائیڈروجن کار کا پلان بنا لیا ہے!
مستقبل کی امیدیں اور خواہشات
میرا ہمیشہ سے یہ خواب رہا ہے کہ ہمارے شہروں میں بھی ہوا اتنی صاف ہو کہ ہم کھلے آسمان تلے سانس لے سکیں۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس خواب کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ میں نے جب بھی کسی روایتی گاڑی سے نکلنے والے دھوئیں کو دیکھا ہے تو میرا دل پریشان ہوا ہے کہ یہ کتنا نقصان دہ ہے۔ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ہمیں اس پریشانی سے نجات دلا سکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھیں جہاں انہیں تازہ ہوا اور صاف ستھرا پانی میسر ہو۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اور دیگر ہائیڈروجن پر مبنی ٹیکنالوجیز اس وژن کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم سب مل کر اس ٹیکنالوجی کو فروغ دیں تو ہم ایک بہتر اور صحت مند مستقبل بنا سکتے ہیں۔ یہ صرف گاڑیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔
ایک انفلوئنسر کی حیثیت سے میری ذمہ داری
ایک بلاگ انفلونسر ہونے کے ناطے، میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ میں آپ سب کو ایسی معلومات فراہم کروں جو نہ صرف فائدہ مند ہوں بلکہ ہمارے مستقبل کے لیے بھی اہم ہوں۔ میں نے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی پر بہت گہرائی سے تحقیق کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیں پائیدار ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ بھی اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور اس کی افادیت کو سمجھیں۔ اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ اس معلومات کو شیئر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے آگاہ ہو سکیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم روایتی طریقوں سے ہٹ کر نئے اور بہتر حل تلاش کریں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ آپ تک بہترین اور تازہ ترین معلومات پہنچا سکوں، اور ہائیڈروجن ٹیکنالوجی پر یہ بلاگ اسی کوشش کا حصہ ہے۔
ماحول دوست سفر کا روشن مستقبل
یقین کریں دوستو، ہمارے سیارے کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ماحول دوست حل کی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور اس کا حل تلاش کرنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ مجھے جب بھی اس موضوع پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں بہت جذباتی ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے۔ ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں اس چیلنج کا ایک شاندار جواب ہیں۔ یہ گاڑیاں زیرو ایمیشن کرتی ہیں، یعنی ان سے کوئی نقصان دہ گیس خارج نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف صاف پانی کے بخارات! یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے جو ہماری ہوا کو صاف کرے گی، ہمارے شہروں کو سرسبز بنائے گی اور ہمیں ایک صحت مند زندگی کا موقع دے گی۔ میں نے اکثر سوچا ہے کہ اگر ہمارے تمام شہروں میں ہائیڈروجن گاڑیاں چلنے لگیں تو ہماری فضا کتنی خوبصورت ہو جائے گی، ہمیں سانس لینے میں کتنی آسانی ہوگی اور ہمارے بچوں کو ایک صاف ستھرا ماحول میسر آئے گا۔ یہ صرف گاڑیوں کی بات نہیں، یہ ہمارے طرز زندگی کو بدلنے کی بات ہے۔
کاربن کے اخراج میں کمی کا جادو
دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس مسئلے کا ایک بہت بڑا حل ہیں۔ چونکہ یہ گاڑیاں اپنے آپریشن میں کوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ یا دیگر گرین ہاؤس گیسیں خارج نہیں کرتیں، اس لیے یہ ہمیں کاربن کے اخراج کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ خاص طور پر اگر ہائیڈروجن کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع (جیسے شمسی یا ہوا کی توانائی) سے پیدا کیا جائے جسے “گرین ہائیڈروجن” کہتے ہیں، تو اس کا مجموعی ماحولیاتی اثر تقریباً صفر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جو ہمیں پیٹرول کی گاڑیوں کے استعمال سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی سے بچا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جو ہمارے سیارے کو پھر سے سرسبز اور شاداب بنا سکتا ہے۔
صحت اور معیار زندگی پر مثبت اثرات
ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا شکار انسانی صحت ہے۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں، دل کے امراض اور دیگر صحت کے مسائل عام ہو گئے ہیں۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جب سڑکوں پر ایسی گاڑیاں زیادہ ہوں گی جو دھواں نہیں چھوڑتیں تو شہروں کی ہوا صاف ہو گی، جس سے لوگوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے صحت مند رہیں گے، بزرگ سکون کی سانس لے سکیں گے اور ہم سب ایک بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یہ صرف ایک گاڑی کی بات نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی صحت اور خوشحالی کی بات ہے۔ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ہمیں ایک ایسا مستقبل دے سکتی ہے جہاں صحت مند زندگی ایک حقیقت ہو۔
| خصوصیت | روایتی پیٹرول گاڑیاں | الیکٹرک گاڑیاں (EVs) | ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں (FCEVs) |
|---|---|---|---|
| ایندھن بھرنے کا وقت | 3-5 منٹ | 30 منٹ سے کئی گھنٹے | 3-5 منٹ |
| ماحولیاتی اثر | زیادہ کاربن اخراج، فضائی آلودگی | زیرو ٹیل پائپ اخراج (بیٹری کی پیداوار کے ماحولیاتی اثرات) | زیرو ٹیل پائپ اخراج (صرف پانی کے بخارات) |
| رینج | عام طور پر زیادہ (400-800 کلومیٹر) | متغیر (200-500 کلومیٹر)، چارجنگ سٹیشن پر منحصر | زیادہ (400-650 کلومیٹر) |
| بنیادی ٹیکنالوجی | اندرونی احتراق انجن | بیٹری سے چلنے والی الیکٹرک موٹر | فیول سیل سسٹم سے بجلی پیدا کرنے والی الیکٹرک موٹر |
| ایندھن کا انفراسٹرکچر | وسیع پیمانے پر دستیاب | تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب بھی محدود | ابتدائی مراحل میں، آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے |
ہائیڈروجن گاڑیاں: یہ جادو کیسے کام کرتا ہے؟
دوستو! جب میں پہلی بار ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں تفصیل سے پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کسی سائنس فکشن فلم کا منظر ہے۔ یہ سوچ کر ہی دل خوش ہوتا تھا کہ میری گاڑی صرف پانی کے بخارات چھوڑے گی اور ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ تو بھائیوں، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہائیڈروجن گاڑیاں محض بیٹری والی گاڑیاں نہیں ہوتیں۔ ان کا کام کرنے کا طریقہ بالکل مختلف اور زیادہ دلچسپ ہے۔ یہ گاڑیاں بنیادی طور پر ایک ‘فیول سیل’ سسٹم پر کام کرتی ہیں۔ اس سسٹم میں ہائیڈروجن گیس اور ہوا سے لی گئی آکسیجن کو ایک خاص کیمیائی عمل سے گزارا جاتا ہے، جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بجلی پھر گاڑی کی الیکٹرک موٹر کو چلاتی ہے اور گاڑی سڑکوں پر دوڑنے لگتی ہے۔ سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں صرف اور صرف پانی کے بخارات ہی خارج ہوتے ہیں، جو ماحول کے لیے بالکل بے ضرر ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ایک ڈاکیومینٹری میں یہ عمل دیکھا تو میں دنگ رہ گیا تھا کہ قدرت کے اس نایاب عنصر کو ہم کس قدر ذہانت سے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جو نہ صرف آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا ہے بلکہ آپ کے سفر کو ماحول کے لیے ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی صرف نقل و حمل کے شعبے میں ہی نہیں بلکہ توانائی کے مستقبل میں بھی ایک گیم چینجر ثابت ہو رہی ہے۔
ہائیڈروجن فیول سیل کا اندرونی نظام
دراصل، ہائیڈروجن فیول سیل کا دل اس کے اندر موجود اینوڈ، کیتھوڈ اور ایک الیکٹرولائٹ ممبرین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہائیڈروجن گیس اینوڈ پر آتی ہے جہاں اس کے الیکٹران اور پروٹان الگ ہو جاتے ہیں۔ الیکٹران ایک بیرونی سرکٹ سے گزر کر بجلی پیدا کرتے ہیں جو گاڑی کی موٹر کو طاقت دیتی ہے، جبکہ پروٹان الیکٹرولائٹ ممبرین سے گزر کر کیتھوڈ تک پہنچتے ہیں۔ کیتھوڈ پر یہ پروٹان، الیکٹران اور ہوا سے لی گئی آکسیجن آپس میں مل کر پانی بناتے ہیں۔ یہ عمل مسلسل ہوتا رہتا ہے جب تک کہ ہائیڈروجن کی سپلائی موجود رہے۔ یہ بالکل ایک چھوٹی بجلی کی فیکٹری کی طرح ہے جو آپ کی گاڑی میں لگی ہوتی ہے! میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ نظام عام بیٹریوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں بیٹری کے وزن اور ان کے ماحولیاتی اثرات کا کوئی جھنجٹ نہیں۔ آپ کو بار بار چارجنگ سٹیشن ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔
روایتی ایندھن بھرنے جیسا آسان تجربہ

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ہائیڈروجن بھرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا پیٹرول یا ڈیزل بھرنا؟ تو میرا جواب ہے، جی ہاں، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ سے بھی زیادہ آسان ہو سکتا ہے۔ میں نے ویڈیوز میں دیکھا ہے کہ ہائیڈروجن کو چند منٹوں میں گاڑی میں بھر لیا جاتا ہے، بالکل جیسے ہم اپنی گاڑی میں پیٹرول بھرواتے ہیں۔ یہ اس ٹیکنالوجی کا ایک بہت بڑا فائدہ ہے کیونکہ لمبی مسافتوں کے سفر میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کا انتظار کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کے ساتھ آپ کو یہ مسئلہ پیش نہیں آتا۔ ایک بار ایندھن بھروائیں اور میلوں کا سفر بلا جھجھک طے کریں۔ یہ سہولت مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب ہمارے اپنے ملک میں بھی ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کا جال بچھ جائے گا۔
روایتی گاڑیوں اور الیکٹرک کاروں سے بہترین کیوں؟
جب ہم نئی گاڑی خریدنے کا سوچتے ہیں تو ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں۔ پیٹرول کی کھپت، ماحولیاتی آلودگی، اور اب الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کا وقت۔ ہائیڈروجن گاڑیاں ان تمام مسائل کا ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ایک دوست سے ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں بات کی تو اس کا پہلا سوال تھا “بھائی، اس میں بیٹری نہیں ہوتی؟” میں نے اسے سمجھایا کہ یہ بالکل مختلف ٹیکنالوجی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ گاڑیاں زیرو ایمیشن کرتی ہیں، یعنی ماحول کو بالکل آلودہ نہیں کرتیں۔ جہاں پیٹرول کی گاڑیاں دھواں چھوڑتی ہیں اور الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کی تیاری اور ان کی ڈسپوزل کے بھی اپنے ماحولیاتی مسائل ہیں، وہیں ہائیڈروجن گاڑیاں صرف صاف پانی کے بخارات خارج کرتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف ستھرا ماحول یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ، الیکٹرک گاڑیوں کی طرح گھنٹوں چارجنگ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ آپ چند منٹوں میں اپنی ہائیڈروجن گاڑی میں ایندھن بھرواتے ہیں اور سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ یہ آسانی اور رفتار مجھے کسی بھی روایتی یا الیکٹرک گاڑی میں نظر نہیں آتی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہم سب اس ٹیکنالوجی کو اپنا لیں تو ہمارے شہروں کی ہوا کتنی صاف ہو جائے گی!
فوری ایندھن بھرنا بمقابلہ طویل چارجنگ
یقین کریں، یہ ایک ایسا نقطہ ہے جو مجھے ذاتی طور پر ہائیڈروجن گاڑیوں کی طرف سب سے زیادہ راغب کرتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں مکمل چارج ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، خاص طور پر اگر آپ طویل سفر پر ہوں۔ راستے میں چارجنگ سٹیشنز پر انتظار کرنا پڑتا ہے جو کہ کبھی کبھی بہت تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ہائیڈروجن گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کا عمل پیٹرول بھرنے کے برابر ہوتا ہے، یعنی صرف 3 سے 5 منٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی منزل تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ سکتے ہیں اور راستے میں وقت ضائع ہونے کی فکر نہیں ہوگی۔ یہ آسانی، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو لمبی ڈرائیو پر نکلتے ہیں یا اپنی گاڑی کو روزانہ زیادہ استعمال کرتے ہیں، ایک نعمت سے کم نہیں۔ میں نے کئی بار سوچا ہے کہ کاش میرے پاس بھی ایک ہائیڈروجن گاڑی ہوتی تو میں ہر ویک اینڈ پر بغیر کسی ٹینشن کے پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل جاتا۔
کم وزن اور زیادہ رینج
ایک اور اہم بات جو ہائیڈروجن گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا وزن ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں میں بڑی اور بھاری بیٹریاں ہوتی ہیں جو گاڑی کا وزن بڑھا دیتی ہیں اور اس کی پرفارمنس پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، ہائیڈروجن فیول سیل سسٹم نسبتاً ہلکا ہوتا ہے، جس سے گاڑی کا مجموعی وزن کم رہتا ہے۔ کم وزن کا مطلب ہے بہتر فیول اکانومی اور زیادہ رینج۔ آپ ایک بار ہائیڈروجن بھروا کر 400 سے 600 کلومیٹر تک کا سفر آسانی سے طے کر سکتے ہیں، جو کہ کئی الیکٹرک گاڑیوں کی رینج سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ہائیڈروجن گاڑیوں کو نہ صرف ماحولیاتی نقطہ نظر سے بلکہ عملی استعمال کے لحاظ سے بھی ایک بہترین انتخاب بناتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس فیچر کو لوگ بہت پسند کریں گے کیونکہ بھاری بیٹریاں نہ صرف گاڑی کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ان کی تیاری اور ڈسپوزل بھی ایک بڑا ماحولیاتی چیلنج ہے۔
ہائیڈروجن انفراسٹرکچر: کیا ہم تیار ہیں؟
جیسے ہی ہم کسی نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو سب سے پہلا سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا اس کا انفراسٹرکچر موجود ہے؟ مجھے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہائیڈروجن گاڑیاں اتنی اچھی ہیں تو سڑکوں پر نظر کیوں نہیں آتیں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کی کمی ہے۔ لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ دنیا بھر میں اس پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، جرمنی، اور کیلیفورنیا جیسے علاقوں میں ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کا جال بچھایا جا رہا ہے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ابتدائی دنوں میں پیٹرول پمپس کم تھے یا پھر جب الیکٹرک گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں تو چارجنگ سٹیشنز ڈھونڈنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسائل حل ہوتے جاتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی صاف توانائی کے اس سفر میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ حکومت اور نجی شعبے کے تعاون سے یہ ممکن ہے کہ ہم بھی جلد ہی ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز اپنی سڑکوں پر دیکھ سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اس جانب جلد توجہ دے گی تاکہ ہماری عوام بھی اس بہترین ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکے۔
عالمی سطح پر پیشرفت
عالمی سطح پر ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ جاپان نے “ہائیڈروجن سوسائٹی” کا تصور پیش کیا ہے جہاں نہ صرف گاڑیاں بلکہ گھروں اور صنعتوں کو بھی ہائیڈروجن توانائی سے چلایا جائے گا۔ جنوبی کوریا نے بھی ہائیڈروجن معیشت کے لیے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں۔ یہ ممالک ہائیڈروجن کی پیداوار، ترسیل اور فیولنگ سٹیشنز کے نیٹ ورک کو وسعت دینے پر کام کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی ہائیڈروجن کونسل جیسے ادارے اس ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ یہ تمام کوششیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مستقبل ہائیڈروجن کا ہے اور یہ محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت بننے جا رہا ہے۔ میں خود کو اس وقت بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں اس دور کا حصہ ہوں جہاں اتنی انقلابی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور ہم سب ان کے گواہ بن رہے ہیں۔
مقامی چیلنجز اور حل
ہمارے جیسے ملکوں میں ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کی تعمیر کے کچھ اپنے چیلنجز ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ہائیڈروجن گیس کی محفوظ پیداوار اور اس کی ٹرانسپورٹیشن۔ اس کے لیے مناسب ٹیکنالوجی اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسرے نمبر پر، فیولنگ سٹیشنز کے لیے زیادہ سرمایہ کاری اور زمین کی دستیابی کا مسئلہ۔ لیکن یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جن کا حل نہ ہو۔ نجی اور سرکاری شراکت داری (PPP) کے ذریعے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر بڑے شہروں میں فیولنگ سٹیشنز قائم کیے جا سکتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کا دائرہ کار بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، مقامی طور پر ہائیڈروجن کی پیداوار کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی، کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ پیداواری لاگت کم ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا موقع ہے جہاں ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں اور ایک صاف ستھرا مستقبل بنا سکتے ہیں۔
حفاظت کے تقاضے: کیا ہائیڈروجن خطرناک ہے؟
جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو لوگ اس کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر بات کسی گیس کی ہو تو خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ہائیڈروجن گاڑیوں کے بارے میں پڑھا تو میرے ذہن میں بھی سب سے پہلے یہی سوال آیا تھا کہ کیا یہ خطرناک ہے؟ لیکن تحقیق کرنے کے بعد مجھے یہ جان کر بہت تسلی ہوئی کہ ہائیڈروجن گاڑیوں میں حفاظت کے بہت سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ہائیڈروجن گیس کو انتہائی مضبوط ٹینکس میں محفوظ کیا جاتا ہے جو حادثے کی صورت میں بھی گیس کو لیک ہونے سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ یہ ٹینکس اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ انہیں گولی مارنے یا انتہائی دباؤ میں رکھنے پر بھی ان سے گیس لیک نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن گیس ہوا سے ہلکی ہوتی ہے، اس لیے اگر کسی وجہ سے یہ لیک ہو بھی جائے تو یہ فوراً فضا میں بلند ہو جاتی ہے اور کسی ایک جگہ جمع نہیں ہوتی، جس سے آگ لگنے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بہت اہم حفاظتی فیچر ہے جو اسے پیٹرول سے بھی زیادہ محفوظ بناتا ہے کیونکہ پیٹرول لیک ہونے پر زمین پر پھیل جاتا ہے اور آگ لگنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں یہ وہ بات ہے جسے عام لوگوں تک پہنچانا بہت ضروری ہے تاکہ ان کے خدشات دور ہو سکیں۔
حادثاتی صورتحال میں ہائیڈروجن کی خصوصیات
ہمارے انجینئرز نے ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے کہ وہ انتہائی سخت حفاظتی معیار پر پورا اتریں۔ حادثے کی صورت میں ہائیڈروجن ٹینکس میں خاص والوز لگے ہوتے ہیں جو زیادہ درجہ حرارت یا دباؤ کی صورت میں گیس کو محفوظ طریقے سے خارج کر دیتے ہیں تاکہ ٹینک پھٹنے کا خطرہ نہ ہو۔ چونکہ ہائیڈروجن ہوا سے بہت تیزی سے اوپر کی طرف جاتی ہے، اس لیے لیک ہونے پر بھی یہ تیزی سے ماحول میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس، پیٹرول یا ڈیزل لیک ہونے پر زمین پر یا گاڑی کے ارد گرد پھیل جاتے ہیں جو آگ لگنے یا دھماکے کا سبب بن سکتا ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت سکون ملا کہ جدید ہائیڈروجن گاڑیاں پیٹرول گاڑیوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ، ان گاڑیوں میں ایڈوانسڈ سینسرز بھی لگے ہوتے ہیں جو کسی بھی غیر معمولی صورتحال میں گیس کے بہاؤ کو فوراً روک دیتے ہیں۔ یہ سب انجینئرنگ کی شاندار مثالیں ہیں جو ہمیں ایک محفوظ سفر فراہم کرتی ہیں۔
عالمی حفاظتی معیار اور ٹیسٹنگ
ہائیڈروجن گاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر بہت سخت ٹیسٹنگ اور معیار مقرر کیے گئے ہیں۔ یورپی یونین، امریکہ اور جاپان میں ہائیڈروجن گاڑیوں کو بازار میں لانے سے پہلے کئی سخت ٹیسٹوں سے گزارا جاتا ہے۔ ان ٹیسٹوں میں حادثاتی ٹیسٹ، آگ کے ٹیسٹ اور زیادہ درجہ حرارت اور دباؤ کی صورتحال میں ٹینکوں کی کارکردگی کی جانچ شامل ہے۔ ان تمام ٹیسٹوں کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ہائیڈروجن گاڑیاں ہر لحاظ سے محفوظ ہوں۔ کئی کار ساز کمپنیاں اپنی ہائیڈروجن گاڑیوں کی کریش ٹیسٹنگ کرواتی ہیں اور انہیں بہترین حفاظتی ریٹنگز حاصل ہوتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے سے پہلے اس کی حفاظت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا بہت ضروری ہے، اور ہائیڈروجن گاڑیوں کے معاملے میں، میں پوری تسلی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ محفوظ ہے۔
جیب پر بوجھ اور مستقبل کی بچت
دوستو! جب بھی ہم نئی ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں تو لاگت کا سوال ضرور آتا ہے، خاص طور پر اگر وہ ٹیکنالوجی ماحول دوست بھی ہو۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ہائیڈروجن گاڑیوں کی قیمتیں دیکھیں تو تھوڑا حیران ہوا تھا، کیونکہ یہ روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں قدرے مہنگی ہوتی ہے۔ لیکن پھر میں نے اس کے طویل مدتی فوائد اور بچت کے بارے میں سوچا۔ آج کل پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اور پیٹرول کی مد میں ہماری جیب سے اچھا خاصا پیسہ نکل جاتا ہے۔ ہائیڈروجن کی قیمتیں، اگرچہ ابھی کچھ زیادہ ہیں، لیکن جیسے جیسے پیداوار بڑھے گی اور انفراسٹرکچر بہتر ہوگا، ان کی قیمتیں بھی کم ہوتی جائیں گی۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کی دیکھ بھال کا خرچ بھی نسبتاً کم ہوتا ہے کیونکہ ان میں کم حرکت پذیر پرزے ہوتے ہیں اور انجن آئل وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سب طویل مدتی بچت کا باعث بنتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا سرمایہ کاری ہے جو نہ صرف آپ کی جیب کے لیے بہتر ہے بلکہ ہمارے سیارے کے لیے بھی۔ حکومت کی جانب سے سبسڈی اور ٹیکس میں چھوٹ بھی ان گاڑیوں کو مزید پرکشش بنا سکتی ہے۔
ابتدائی سرمایہ کاری بمقابلہ طویل مدتی بچت
یہ سچ ہے کہ ہائیڈروجن گاڑی خریدنے کی ابتدائی لاگت تھوڑی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر نئی اور ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں صرف موجودہ قیمت کو نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ مستقبل کی بچت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ پیٹرول کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جبکہ ہائیڈروجن کی پیداوار کے طریقے جیسے جیسے بہتر ہوں گے، اس کی قیمتیں بھی کم ہوتی جائیں گی۔ ایک بار جب آپ ہائیڈروجن گاڑی خرید لیتے ہیں، تو آپ کو پیٹرول کے بھاری بھرکم بلوں سے نجات مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہائیڈروجن فیول سیل سسٹم کی زندگی بھی کافی لمبی ہوتی ہے اور اس کی دیکھ بھال بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ 5 سے 7 سال کے عرصے میں آپ اپنی ابتدائی زیادہ لاگت کو بچت کی صورت میں واپس حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک سمجھدار سرمایہ کاری ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو ماحول کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی جیب کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔
حکومتی مراعات اور مستقبل کے امکانات
دنیا بھر میں حکومتیں ہائیڈروجن گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے مختلف مراعات پیش کر رہی ہیں۔ کچھ ممالک میں ان گاڑیوں پر ٹیکس میں چھوٹ دی جا رہی ہے، جبکہ کچھ جگہوں پر ہائیڈروجن فیولنگ سٹیشنز کی تعمیر کے لیے سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ان مراعات کا مقصد لوگوں کو اس ٹیکنالوجی کی طرف راغب کرنا اور اس کے پھیلاؤ کو تیز کرنا ہے۔ میرے خیال میں ہماری حکومت کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور ہائیڈروجن گاڑیوں کے خریداروں کے لیے کچھ خاص پیکیجز کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف لوگ اس ماحول دوست ٹیکنالوجی کو اپنائیں گے بلکہ ملک میں صاف توانائی کے شعبے کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ ایک win-win صورتحال ہے جہاں حکومت، عوام اور ماحول سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب میں بھی اپنی ہائیڈروجن گاڑی خرید سکوں اور اس صاف ستھرے سفر کا حصہ بن سکوں۔
عالمی رجحانات اور پاکستان کے لیے امکانات
دوستو! دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور توانائی کے شعبے میں ہر روز نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ہائیڈروجن فیول سیل ٹیکنالوجی اب صرف تجرباتی مرحلے میں نہیں رہی بلکہ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، امریکہ اور یورپی ممالک اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر اپنا رہے ہیں اور اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہائیڈروجن کو ایک اہم ذریعہ بنا رہے ہیں۔ وہ صرف ہائیڈروجن گاڑیاں نہیں بلکہ ہائیڈروجن سے چلنے والی بسیں، ٹرینیں اور حتیٰ کہ بجلی کے پلانٹس بھی تیار کر رہے ہیں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ مستقبل ہائیڈروجن کا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان بھی اس عالمی رجحان کا حصہ بن سکتا ہے؟ میرا جواب ہے، جی ہاں، بالکل! پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی توانائی، کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے، جنہیں استعمال کر کے “گرین ہائیڈروجن” پیدا کی جا سکتی ہے۔ گرین ہائیڈروجن وہ ہے جو ماحول دوست طریقوں سے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے کہ ہم اپنی توانائی کی درآمدات پر انحصار کم کریں اور ایک صاف ستھری اور پائیدار توانائی کا نظام قائم کریں۔
دنیا کی بڑی کمپنیاں ہائیڈروجن کی طرف
مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں جیسے ٹویوٹا، ہنڈائی اور ہونڈا ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کی تیاری میں پیش پیش ہیں۔ ان کمپنیوں نے ہائیڈروجن گاڑیوں کے کئی ماڈلز کامیابی سے لانچ کیے ہیں جو سڑکوں پر چل رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی قابل اعتماد اور عملی ہے۔ اس کے علاوہ، بڑے پیمانے پر ٹرانسپورٹیشن کے لیے بھی ہائیڈروجن بسیں اور ٹرک تیار کیے جا رہے ہیں جو شہروں کی آلودگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کمپنیاں صرف گاڑیاں نہیں بنا رہی بلکہ ہائیڈروجن انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ سب دیکھ کر میرا دل خوش ہو جاتا ہے کہ ہم ایک ایسے روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہمیں پیٹرول کے دھوئیں سے نجات مل جائے گی۔
پاکستان کے لیے سنہری موقع
پاکستان کے لیے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔ ہم توانائی کی کمی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کرنے سے ہم ان دونوں مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ پاکستان کے پاس شمسی اور ہوا کی توانائی کے وافر وسائل موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے سستی اور ماحول دوست ہائیڈروجن پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، صنعتوں کو بھی ہائیڈروجن پر منتقل کر کے ہم اپنے کاربن کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں۔ حکومت کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینی چاہیے اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ پاکستان عالمی سطح پر صاف توانائی کے میدان میں ایک اہم کھلاڑی بن کر ابھر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم آج اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں گے تو شاید آئندہ کئی سالوں تک پچھتائیں گے۔
میرے ذاتی تجربات اور سوچ
دوستو! مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار ہائیڈروجن گاڑی کے بارے میں ایک کانفرنس میں سنا تو مجھے لگا کہ یہ تو بہت دور کی بات ہے۔ لیکن جیسے جیسے میں نے اس پر تحقیق کی اور دنیا بھر میں اس کی ترقی کو دیکھا تو میرا نظریہ بالکل بدل گیا۔ میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اس بلاگ کے ذریعے آپ سب کو اس انقلابی ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ مجھے ایک بار ہائیڈروجن سے چلنے والی ایک بس میں سفر کرنے کا موقع ملا، حالانکہ وہ میرے ملک میں نہیں تھی لیکن یہ تجربہ میرے لیے ناقابل فراموش تھا۔ بس بالکل خاموشی سے چل رہی تھی اور کوئی دھواں یا شور نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا جیسے میں مستقبل میں سفر کر رہا ہوں۔ یہ تجربہ مجھے اس بات پر پختہ یقین دلاتا ہے کہ ہائیڈروجن ہی ہمارے نقل و حمل کا مستقبل ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جلد ہی ہمارے شہروں میں بھی ایسی گاڑیاں اور بسیں سڑکوں پر دوڑیں گی اور ہم سب اس صاف ستھرے سفر کا حصہ بن سکیں گے۔ میں نے تو اپنی اگلی گاڑی کے لیے ابھی سے ہائیڈروجن کار کا پلان بنا لیا ہے!
مستقبل کی امیدیں اور خواہشات
میرا ہمیشہ سے یہ خواب رہا ہے کہ ہمارے شہروں میں بھی ہوا اتنی صاف ہو کہ ہم کھلے آسمان تلے سانس لے سکیں۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس خواب کو پورا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ میں نے جب بھی کسی روایتی گاڑی سے نکلنے والے دھوئیں کو دیکھا ہے تو میرا دل پریشان ہوا ہے کہ یہ کتنا نقصان دہ ہے۔ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ہمیں اس پریشانی سے نجات دلا سکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھیں جہاں انہیں تازہ ہوا اور صاف ستھرا پانی میسر ہو۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اور دیگر ہائیڈروجن پر مبنی ٹیکنالوجیز اس وژن کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم سب مل کر اس ٹیکنالوجی کو فروغ دیں تو ہم ایک بہتر اور صحت مند مستقبل بنا سکتے ہیں۔ یہ صرف گاڑیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔
ایک انفلوئنسر کی حیثیت سے میری ذمہ داری
ایک بلاگ انفلونسر ہونے کے ناطے، میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ میں آپ سب کو ایسی معلومات فراہم کروں جو نہ صرف فائدہ مند ہوں بلکہ ہمارے مستقبل کے لیے بھی اہم ہوں۔ میں نے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی پر بہت گہرائی سے تحقیق کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیں پائیدار ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ بھی اس ٹیکنالوجی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور اس کی افادیت کو سمجھیں۔ اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ اس معلومات کو شیئر کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے آگاہ ہو سکیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم روایتی طریقوں سے ہٹ کر نئے اور بہتر حل تلاش کریں۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ آپ تک بہترین اور تازہ ترین معلومات پہنچا سکوں، اور ہائیڈروجن ٹیکنالوجی پر یہ بلاگ اسی کوشش کا حصہ ہے۔
ماحول دوست سفر کا روشن مستقبل
یقین کریں دوستو، ہمارے سیارے کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ماحول دوست حل کی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے اور اس کا حل تلاش کرنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ مجھے جب بھی اس موضوع پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں بہت جذباتی ہو جاتا ہوں کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے۔ ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں اس چیلنج کا ایک شاندار جواب ہیں۔ یہ گاڑیاں زیرو ایمیشن کرتی ہیں، یعنی ان سے کوئی نقصان دہ گیس خارج نہیں ہوتی۔ صرف اور صرف صاف پانی کے بخارات! یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے جو ہماری ہوا کو صاف کرے گی، ہمارے شہروں کو سرسبز بنائے گی اور ہمیں ایک صحت مند زندگی کا موقع دے گی۔ میں نے اکثر سوچا ہے کہ اگر ہمارے تمام شہروں میں ہائیڈروجن گاڑیاں چلنے لگیں تو ہماری فضا کتنی خوبصورت ہو جائے گی، ہمیں سانس لینے میں کتنی آسانی ہوگی اور ہمارے بچوں کو ایک صاف ستھرا ماحول میسر آئے گا۔ یہ صرف گاڑیوں کی بات نہیں، یہ ہمارے طرز زندگی کو بدلنے کی بات ہے۔
کاربن کے اخراج میں کمی کا جادو
دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس مسئلے کا ایک بہت بڑا حل ہیں۔ چونکہ یہ گاڑیاں اپنے آپریشن میں کوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ یا دیگر گرین ہاؤس گیسیں خارج نہیں کرتیں، اس لیے یہ ہمیں کاربن کے اخراج کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ خاص طور پر اگر ہائیڈروجن کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع (جیسے شمسی یا ہوا کی توانائی) سے پیدا کیا جائے جسے “گرین ہائیڈروجن” کہتے ہیں، تو اس کا مجموعی ماحولیاتی اثر تقریباً صفر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جو ہمیں پیٹرول کی گاڑیوں کے استعمال سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی سے بچا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا جادو ہے جو ہمارے سیارے کو پھر سے سرسبز اور شاداب بنا سکتا ہے۔
صحت اور معیار زندگی پر مثبت اثرات
ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا شکار انسانی صحت ہے۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں، دل کے امراض اور دیگر صحت کے مسائل عام ہو گئے ہیں۔ ہائیڈروجن گاڑیاں اس فضائی آلودگی کو کم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ جب سڑکوں پر ایسی گاڑیاں زیادہ ہوں گی جو دھواں نہیں چھوڑتیں تو شہروں کی ہوا صاف ہو گی، جس سے لوگوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے صحت مند رہیں گے، بزرگ سکون کی سانس لے سکیں گے اور ہم سب ایک بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یہ صرف ایک گاڑی کی بات نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی صحت اور خوشحالی کی بات ہے۔ میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ ہائیڈروجن ٹیکنالوجی ہمیں ایک ایسا مستقبل دے سکتی ہے جہاں صحت مند زندگی ایک حقیقت ہو۔
| خصوصیت | روایتی پیٹرول گاڑیاں | الیکٹرک گاڑیاں (EVs) | ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں (FCEVs) |
|---|---|---|---|
| ایندھن بھرنے کا وقت | 3-5 منٹ | 30 منٹ سے کئی گھنٹے | 3-5 منٹ |
| ماحولیاتی اثر | زیادہ کاربن اخراج، فضائی آلودگی | زیرو ٹیل پائپ اخراج (بیٹری کی پیداوار کے ماحولیاتی اثرات) | زیرو ٹیل پائپ اخراج (صرف پانی کے بخارات) |
| رینج | عام طور پر زیادہ (400-800 کلومیٹر) | متغیر (200-500 کلومیٹر)، چارجنگ سٹیشن پر منحصر | زیادہ (400-650 کلومیٹر) |
| بنیادی ٹیکنالوجی | اندرونی احتراق انجن | بیٹری سے چلنے والی الیکٹرک موٹر | فیول سیل سسٹم سے بجلی پیدا کرنے والی الیکٹرک موٹر |
| ایندھن کا انفراسٹرکچر | وسیع پیمانے پر دستیاب | تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب بھی محدود | ابتدائی مراحل میں، آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے |
글을마치며
دوستو! ہائیڈروجن گاڑیاں ہمارے مستقبل کی ایسی ہی ایک جھلک ہیں جہاں صاف ستھری ہوا، تیز رفتار سفر اور ماحول دوست ٹیکنالوجی ایک ساتھ چلتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس پوسٹ نے آپ کے ذہن میں ہائیڈروجن ٹیکنالوجی کے بارے میں تمام شکوک و شبہات دور کر دیے ہوں گے اور آپ بھی اس انقلابی تبدیلی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ صرف ایک گاڑی کا انتخاب نہیں بلکہ ایک بہتر مستقبل کے لیے ہمارے عزم کا اظہار ہے۔ چلیں، مل کر ایک صاف ستھری دنیا کی طرف بڑھتے ہیں۔
알아두면 쓸모 있는 정보
1. ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں (FCEVs) صرف پانی کے بخارات خارج کرتی ہیں، جس سے فضائی آلودگی بالکل نہیں ہوتی۔
2. ان گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کا وقت پیٹرول گاڑیوں کے برابر (3-5 منٹ) ہوتا ہے، جو الیکٹرک گاڑیوں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔
3. ہائیڈروجن ٹینکس انتہائی مضبوط اور محفوظ ہوتے ہیں، جو حادثاتی صورتحال میں گیس لیک ہونے سے بچاتے ہیں۔
4. عالمی سطح پر ہائیڈروجن انفراسٹرکچر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مستقبل میں فیولنگ سٹیشنز کی دستیابی بہتر ہوگی۔
5. ابتدائی لاگت زیادہ ہونے کے باوجود، ہائیڈروجن گاڑیاں طویل مدت میں ایندھن اور دیکھ بھال کے اخراجات میں بچت فراہم کرتی ہیں۔
중요 사항 정리
خلاصہ یہ کہ ہائیڈروجن گاڑیاں ماحول دوست، محفوظ اور عملی نقل و حمل کا ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں۔ یہ تیزی سے ایندھن بھرنے کی صلاحیت، کم وزن اور طویل رینج کے ساتھ روایتی اور الیکٹرک گاڑیوں پر کئی فوائد رکھتی ہیں۔ اگرچہ فی الحال انفراسٹرکچر محدود ہے، لیکن عالمی پیشرفت اور حکومتی مراعات کے ساتھ، ہائیڈروجن ٹیکنالوجی کا مستقبل روشن ہے اور یہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بھی توانائی کے شعبے میں خود انحصاری اور ماحولیاتی تحفظ کا سنہری موقع ہے۔
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖
س: آخر یہ ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں عام الیکٹرک گاڑیوں (EVs) سے کیسے مختلف ہیں؟ لوگ تو کہتے ہیں دونوں ہی بجلی سے چلتی ہیں، پھر یہ ہائیڈروجن والی خاص کیوں ہے؟
ج: بہت اچھا سوال ہے دوستو! یہ بات اکثر لوگوں کو پریشان کرتی ہے کہ جب EV بھی بجلی سے چلتی ہیں تو ہائیڈروجن والی گاڑی کیوں لائی گئی؟ دیکھیں، اصل فرق ان کی ‘بجلی بنانے’ کے طریقے میں ہے۔ عام الیکٹرک گاڑیاں بیٹریوں میں بجلی ذخیرہ کرتی ہیں اور پھر اسی سے چلتی ہیں۔ ان کو باقاعدگی سے چارج کرنا پڑتا ہے، اور چارجنگ میں وقت لگتا ہے۔لیکن ہائیڈروجن فیول سیل گاڑی (FCEV) کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی بجلی فیکٹری کی طرح ہے جو گاڑی کے اندر ہی کام کرتی ہے۔ یہ ہائیڈروجن گیس کو ہوا سے حاصل ہونے والی آکسیجن کے ساتھ ملا کر ایک کیمیائی عمل کے ذریعے براہ راست بجلی پیدا کرتی ہے۔ اس عمل میں صرف پانی کے بخارات (جیسے خالص آب مقطر) خارج ہوتے ہیں، کوئی دھواں یا آلودگی نہیں!
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ گاڑی چارج نہیں ہوتی بلکہ ‘ایندھن بھرتی’ ہے۔ جیسے آپ پٹرول بھرواتے ہیں، ویسے ہی ہائیڈروجن چند منٹوں میں بھر جاتی ہے اور آپ سینکڑوں میل کا سفر طے کر سکتے ہیں۔ مجھے تو یہ سن کر ہی سکون آ جاتا ہے کہ چارجنگ کے انتظار کی ٹینشن ہی ختم!
یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جہاں بجلی گاڑی کے اندر ہی پیدا ہو رہی ہے، نہ کہ باہر سے بیٹری میں ذخیرہ کی جا رہی ہو۔
س: ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کے وہ کون سے بڑے فائدے ہیں جو اسے ہمارے جیسے ملکوں کے لیے بہترین آپشن بنا سکتے ہیں، خصوصاً جب پیٹرول اتنا مہنگا ہو رہا ہے؟
ج: بالکل! یہ تو سیدھا ہمارے دل کا سوال ہے، کیونکہ پیٹرول کی قیمتیں واقعی کمر توڑ رہی ہیں۔ ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیوں کے کئی ایسے فائدے ہیں جو انہیں ہمارے لیے ایک گیم چینجر بنا سکتے ہیں:
- ماحول دوست اور صاف ستھری: یہ سب سے بڑا فائدہ ہے!
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، یہ گاڑیاں صرف پانی کے بخارات خارج کرتی ہیں، صفر آلودگی، صفر کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ سوچیں، اگر ہماری سڑکوں پر یہ گاڑیاں دوڑنے لگیں تو شہروں کی ہوا کتنی صاف ہو جائے گی، ہمیں صحت مند ماحول ملے گا۔ ایک بار جب میں نے کسی ماہر سے سنا کہ ان گاڑیوں سے نکلنے والے پانی کو پیا بھی جا سکتا ہے (اگرچہ عملی طور پر کوئی پیتا نہیں)، تو میں حیران رہ گیا تھا کہ یہ کتنی صاف ٹیکنالوجی ہے۔ - تیز رفتار ایندھن بھرنا اور لمبا سفر: الیکٹرک گاڑیوں کے برعکس، جنہیں چارج ہونے میں گھنٹے لگ سکتے ہیں، ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑی چند منٹوں میں فل ٹینک ہو جاتی ہے، بالکل پٹرول گاڑی کی طرح۔ اس کے بعد آپ لمبی مسافت طے کر سکتے ہیں، مجھے یاد ہے جب میں نے ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ جاپان میں لوگ اس ٹیکنالوجی پر کتنا فخر کرتے ہیں کیونکہ یہ انہیں لمبی ڈرائیوز کی آزادی دیتی ہے۔ اب آپ کو لمبی منزلوں کے لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی!
- ایندھن کی بچت اور کارکردگی: تحقیق بتاتی ہے کہ ہائیڈروجن فیول سیل گاڑیاں روایتی ڈیزل یا پٹرول گاڑیوں سے زیادہ کارآمد ہوتی ہیں۔ اگرچہ ابھی یہ ٹیکنالوجی نئی ہے، لیکن ماہرین پر امید ہیں کہ مستقبل میں ہائیڈروجن کی پیداوار سستی ہونے سے، اسے استعمال کرنے کا خرچہ بھی کافی کم ہو جائے گا۔ یہ اس طرح ہے جیسے آپ اپنے گھر میں ہی بجلی پیدا کر رہے ہوں اور باہر سے نہ خریدنی پڑے۔
س: کیا ہائیڈروجن فیول سیل ٹیکنالوجی واقعی ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک عملی حل ہے؟ انفراسٹرکچر کیسا ہوگا اور کیا یہ سستی ہوگی؟
ج: یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں آنا فطری ہے۔ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے، ہم سب سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے ملک میں ممکن ہو پائے گی؟ ایمانداری سے کہوں تو ابھی ہائیڈروجن فیولنگ اسٹیشنز اتنے عام نہیں ہیں جتنے پٹرول پمپ، مگر دنیا تیزی سے اس طرف بڑھ رہی ہے۔میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ بہت سے ممالک، جن میں سعودی عرب اور جاپان پیش پیش ہیں، ہائیڈروجن کے انفراسٹرکچر پر بہت سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چین بھی ہائیڈروجن فیول سیل کمرشل گاڑیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان میں بھی، اگرچہ الیکٹرک گاڑیوں کے انفراسٹرکچر کی بھی کمی ہے، لیکن گرین ہائیڈروجن کے وسیع ذخائر موجود ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی امید کی کرن ہے کہ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر کام کریں تو ہمارے لیے بھی ہائیڈروجن اسٹیشنز کا جال بچھانا ممکن ہے۔ہاں، ابتدائی لاگت تھوڑی زیادہ ہو سکتی ہے، یہ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوتا ہے۔ جیسے شروع میں سمارٹ فونز مہنگے ہوتے تھے، مگر وقت کے ساتھ سستے ہو گئے۔ مگر طویل مدت میں، جب ہائیڈروجن کی پیداوار اور فراہمی کا نظام بڑے پیمانے پر قائم ہو جائے گا تو اس کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ میں آ جائیں گی۔ حکومتیں بھی صاف توانائی کو فروغ دینے کے لیے مراعات دے سکتی ہیں۔ یاد رکھیں، دنیا کی بڑی آٹو کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں، اس کا مطلب ہے کہ انہیں اس میں مستقبل نظر آتا ہے۔ یہ کوئی دور کا خواب نہیں، بلکہ ہمارے آنے والے کل کی حقیقت ہے۔ مجھے تو پکا یقین ہے کہ یہ سب ممکن ہے، بس وقت اور تھوڑی سی کوشش درکار ہے۔






