نقل و حرکت میں انقلابی ٹیکنالوجی: وہ راز جو آپ کو حیران کر دیں گے

webmaster

Updated on:

کبھی سوچا ہے کہ ہماری روزمرہ کی نقل و حرکت (mobility) کتنی تیزی سے بدل رہی ہے؟ مجھے یاد ہے، جب ہم بچے تھے تو اڑنے والی گاڑیوں کے تصور پر صرف ہالی ووڈ فلموں میں یقین کیا جاتا تھا۔ مگر آج، جب میں نے خود الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتے دیکھی ہیں اور ‘آٹونومس ڈرائیونگ’ کے بارے میں پڑھتا ہوں، تو یہ محض خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہ تبدیلیاں صرف گاڑیوں تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے پورے شہروں کا نقشہ بدل رہی ہیں۔اب جب ہم بات کرتے ہیں ‘موبیلٹی انوویشن’ کی تو صرف ذاتی سواریوں کی بات نہیں رہتی۔ آجکل ‘شیئرڈ موبیلٹی’ پلیٹ فارمز، مائیکرو موبیلٹی سلوشنز جیسے الیکٹرک سکوٹرز اور مستقبل قریب میں ‘اربن ایئر موبیلٹی’ جیسے خیالات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز نہ صرف ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے طریقے بدل رہی ہیں بلکہ ہمارے وقت کی بچت اور ماحولیاتی مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کئی ماہرین یہ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ اگلے پانچ سالوں میں ہم نقل و حرکت کے ایسے انقلابی ماڈلز دیکھیں گے جو آج ناقابلِ یقین لگتے ہیں۔ میری نظر میں، یہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقی نہیں، بلکہ ہمارے طرزِ زندگی کا ایک نیا باب ہے۔ذیل میں ہم اس بارے میں مزید گہرائی سے جانیں گے!

شہروں کی نقل و حرکت کا ارتقاء: ایک نیا دور

نقل - 이미지 1

مجھے یاد ہے، چند دہائیاں پہلے ہمارے شہروں میں نقل و حرکت کا تصور بہت سادہ تھا۔ ذاتی گاڑیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ ہی بنیادی ذریعے تھے، اور کبھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ ہم کبھی ایسے وقت میں پہنچیں گے جہاں ہر چیز کا محور “اسمارٹ” ہونا ہو گا۔ مگر آج، جب میں خود دیکھ رہا ہوں کہ ٹیکنالوجی نے کس طرح ہمارے شہروں کو بدل دیا ہے۔ اب شہروں کی منصوبہ بندی صرف عمارتوں اور سڑکوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے جاتے ہیں، ان کی یہ نقل و حرکت کتنی موثر اور ماحول دوست ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے جو سب سے بڑی وجہ ہے، وہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے جس نے ہمیں ایسی سہولیات فراہم کی ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب نہ صرف گاڑیاں خود چل رہی ہیں بلکہ پورا ٹرانسپورٹیشن سسٹم ایک مربوط نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ صرف سڑکوں کی بھیڑ کم کرنے کی بات نہیں، بلکہ اس سے ہمارے شہروں کا معیارِ زندگی بھی بہتر ہو رہا ہے، اور میں ذاتی طور پر اس تبدیلی کو محسوس کر رہا ہوں۔

اسمارٹ شہروں میں موبیلٹی کا کردار

جب ہم ‘اسمارٹ شہر’ کی بات کرتے ہیں تو موبیلٹی اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے سینسرز، ڈیٹا انالٹکس اور مصنوعی ذہانت (AI) کو استعمال کرتے ہوئے ٹریفک کو منظم کیا جا رہا ہے۔ اب سڑکوں پر محض گاڑیوں کا ہجوم نہیں ہوتا، بلکہ ایک منظم بہاؤ نظر آتا ہے۔ یہ نظام ٹریفک سگنلز کو خودکار طریقے سے کنٹرول کرتے ہیں، پارکنگ کی جگہوں کو آن لائن دکھاتے ہیں اور یہاں تک کہ ایمرجنسی خدمات کے لیے بھی راستے صاف کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب میں نے ایک اسمارٹ پارکنگ ایپ استعمال کی تھی، تو میں حیران رہ گیا کہ پارکنگ ڈھونڈنے میں جو وقت ضائع ہوتا تھا، وہ اب منٹوں میں بچنے لگا۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہیں جو ہمارے روزمرہ کے مسائل کو حل کر رہی ہیں اور میرے خیال میں یہ مستقبل کی نقل و حرکت کا بنیادی جزو ہے۔ اس کے بغیر اسمارٹ شہروں کا تصور ادھورا ہے۔

ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کا انقلاب

آجکل ہم جو بھی نقل و حرکت دیکھتے ہیں، اس کے پیچھے ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کا ایک بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ یہ وہی ٹیکنالوجیز ہیں جو ہمیں ٹریفک کی تازہ ترین صورتحال بتاتی ہیں، سب سے مختصر راستہ تجویز کرتی ہیں اور یہاں تک کہ خودکار گاڑیوں کو چلانے میں مدد دیتی ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق، جب سے گوگل میپس اور اسی طرح کی ایپس میں AI کی شمولیت ہوئی ہے، ہمارا سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ اب مجھے راستے میں رکاوٹوں یا وقت کے ضیاع کی فکر نہیں رہتی۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کیسے شہر کی انتظامیہ بڑے ڈیٹا سیٹس کو استعمال کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کر رہی ہے کہ کب اور کہاں ٹریفک جام ہو سکتا ہے، اور پھر اس کے لیے پہلے سے انتظامات کرتی ہے۔ یہ واقعی ایک انقلابی تبدیلی ہے اور میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ یہ صرف سفر کو آسان نہیں بناتی بلکہ شہروں کو مزید موثر اور فعال بناتی ہے۔

برقی گاڑیاں: صرف ماحول دوست نہیں، بلکہ مستقبل کی ضرورت

کبھی سوچا تھا کہ پٹرول پمپ کی قطاروں سے نجات مل جائے گی؟ میں نے خود بچپن میں الیکٹرک گاڑیوں کو صرف سائنس فکشن فلموں میں دیکھا تھا۔ مگر آج، جب میں اپنے شہر کی سڑکوں پر برقی گاڑیوں کو خاموشی سے دوڑتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے یہ حقیقت پر مبنی مستقبل محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ محض ایک ٹرینڈ نہیں، بلکہ ہمارے سیارے کی بقا اور ہمارے جیب خرچ کی بچت کے لیے ایک ناگزیر قدم ہے۔ برقی گاڑیاں صرف کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں ہی مدد نہیں دیتیں بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں بہت آسان اور سستی ہوتی ہے۔ یہ میرے ذاتی تجربے میں آیا ہے کہ الیکٹرک کار چلانا کتنا پرسکون ہوتا ہے، نہ انجن کا شور اور نہ دھوئیں کی بدبو۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو آپ کو صرف ایک بار تجربہ کرنے پر ہی پتہ چلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس ٹیکنالوجی کا ایک بڑا حامی بن چکا ہوں اور ہر کسی کو اسے آزمانے کی ترغیب دیتا ہوں۔

بیٹری ٹیکنالوجی میں پیش رفت

برقی گاڑیوں کی کامیابی کا راز ان کی بیٹری ٹیکنالوجی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے یاد ہے جب شروع میں الیکٹرک گاڑیاں زیادہ فاصلہ طے نہیں کر پاتی تھیں اور بیٹری چارجنگ کا مسئلہ بھی بہت بڑا تھا۔ مگر اب، جیسے جیسے بیٹری کی گنجائش بڑھ رہی ہے اور چارجنگ کا وقت کم ہو رہا ہے، یہ گاڑیاں ہر دن پہلے سے زیادہ عملی اور قابلِ اعتماد بنتی جا رہی ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک نئی الیکٹرک کار کے بارے میں پڑھا تھا جو ایک چارج پر 500 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکتی ہے، جو کہ میرے لیے ایک حیران کن خبر تھی۔ یہ وہ پیش رفتیں ہیں جو لوگوں کو برقی گاڑیوں کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ہم ایسی بیٹریاں دیکھیں گے جو اتنی تیزی سے چارج ہوں گی جتنی تیزی سے ہم آج اپنے فون چارج کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف الیکٹرک گاڑیوں کو مین سٹریم بنائے گی بلکہ ان کی افادیت کو بھی کئی گنا بڑھا دے گی۔

چارجنگ انفراسٹرکچر کا پھیلاؤ

برقی گاڑیوں کے فروغ کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ میرے شہر میں، میں نے دیکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں چارجنگ اسٹیشنز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے، اور یہ اضافہ میرے لیے کافی حوصلہ افزا ہے۔ اب شاہراہوں پر، شاپنگ مالز میں اور رہائشی علاقوں میں بھی چارجنگ پوائنٹس موجود ہیں، جو برقی گاڑیوں کے مالکان کے لیے سفر کو آسان بناتے ہیں۔ میں نے ایک دوست کے گھر پر بھی پرائیویٹ چارجنگ سٹیشن لگتے دیکھا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی عام لوگوں کی پہنچ میں آ رہی ہے۔ یہ انفراسٹرکچر جتنا مضبوط ہوگا، اتنی ہی تیزی سے ہم برقی گاڑیوں کے مستقبل کی طرف بڑھیں گے، اور میں اس تبدیلی کا حصہ بننے کے لیے پرجوش ہوں۔ حکومتوں اور نجی کمپنیوں کو اس سلسلے میں مزید سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی اس سے مستفید ہو سکے۔

مشترکہ سفری نظام: ہماری سوچ سے زیادہ عملی

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ اپنی کار کے بغیر بھی شہر میں کہیں بھی آسانی سے سفر کر سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ یہ خواب اب حقیقت بن چکا ہے، اور اس کا سہرا ‘شیئرڈ موبیلٹی’ پلیٹ فارمز کو جاتا ہے۔ میرے ذاتی تجربے میں، اوبر اور کریم جیسی سروسز نے ہماری روزمرہ کی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے۔ اب ہمیں اپنی گاڑی خریدنے، اس کی دیکھ بھال کرنے یا پارکنگ ڈھونڈنے کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔ صرف ایک ایپ کے ذریعے، ہم جب چاہیں، جہاں چاہیں، گاڑی منگوا سکتے ہیں۔ یہ صرف سہولت کی بات نہیں، بلکہ اس سے شہروں میں گاڑیوں کی تعداد کم ہوتی ہے، ٹریفک میں کمی آتی ہے، اور سب سے اہم بات، یہ ہمارے ماحول کے لیے بھی بہتر ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ مشترکہ سفری نظام نے نہ صرف میرے پیسے بچائے ہیں بلکہ میری زندگی میں ایک نئی آسانی پیدا کر دی ہے۔ یہ واقعی ایک ایسی تبدیلی ہے جس نے سفر کے ہمارے پرانے تصور کو چیلنج کیا ہے اور اسے مزید پائیدار اور موثر بنا دیا ہے۔

کار پولنگ اور رائڈ شیئرنگ کا بڑھتا رجحان

مجھے یاد ہے، ماضی میں کار پولنگ صرف دوستوں یا دفتر کے ساتھیوں کے درمیان ہوتی تھی۔ مگر اب، رائڈ شیئرنگ ایپس نے اسے ایک باقاعدہ صنعت بنا دیا ہے۔ میں نے خود کئی بار اوبر پول یا کریم کی شیئرڈ رائڈز استعمال کی ہیں، اور یہ میرے لیے نہ صرف سستی ثابت ہوئیں بلکہ مجھے نئے لوگوں سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ یہ رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں بہت مقبول ہو رہا ہے جو گاڑی خریدنے کے بجائے ضرورت کے وقت اسے استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ میرے خیال میں ایک بہت مثبت تبدیلی ہے کیونکہ اس سے ہمارے شہروں میں گاڑیوں کا بے جا استعمال کم ہو رہا ہے۔ یہ صرف ایک اقتصادی ماڈل نہیں، بلکہ ایک سماجی تبدیلی بھی ہے جہاں لوگ وسائل کو بانٹنا سیکھ رہے ہیں، جس سے شہروں پر دباؤ کم ہوتا ہے۔

بائیک اور سکوٹر شیئرنگ کی مقبولیت

بڑے شہروں میں ٹریفک سے بچنے کا ایک اور بہترین طریقہ مائیکرو موبیلٹی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ اب شہروں میں الیکٹرک بائیکس اور سکوٹرز کرائے پر دستیاب ہیں۔ میں نے ایک دفعہ کسی دوست کے کہنے پر ایک الیکٹرک سکوٹر کرائے پر لیا تھا، اور میرا یہ تجربہ بہت شاندار رہا۔ مختصر فاصلے کے لیے، خاص طور پر رش والے علاقوں میں، یہ ایک بہترین آپشن ہے۔ یہ نہ صرف وقت بچاتے ہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہیں۔ میرے دوستوں میں بھی ان کا رجحان بڑھ رہا ہے، خاص طور پر کالج جانے والے طلباء اور ایسے لوگ جو کام پر جانے کے لیے مختصر فاصلہ طے کرتے ہیں۔ یہ ایک سستا اور آسان حل ہے جو شہروں میں ‘آخری میل’ کے سفر کے مسئلے کو حل کر رہا ہے، اور مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہم اپنے شہروں کو مزید سبز اور قابل رہائش بنا رہے ہیں۔

چھوٹی سواریاں: بڑے مسائل کا چھوٹا حل

آج سے دس سال پہلے کون سوچ سکتا تھا کہ ہم اپنے شہروں میں کرائے پر الیکٹرک سکوٹرز اور بائیسکلز استعمال کریں گے؟ میرے لیے، یہ ایک انقلابی تبدیلی ہے جس نے مختصر فاصلے کے سفر کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ میں نے خود اپنے شہر کے مصروف بازاروں میں ان سکوٹرز کو استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میرے کچھ دوست باقاعدگی سے انہیں کام پر جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف وقت بچاتے ہیں بلکہ ٹریفک جام سے بھی نجات دلاتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ اسٹیشن سے اپنے منزل تک کا آخری فاصلہ طے کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہ چھوٹی سواریاں شہروں کو زیادہ قابل رسائی اور ماحول دوست بنا رہی ہیں، اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہمارے شہری ماحول کو بہتر بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ صرف ایک سواری نہیں، بلکہ ایک سوچ کا حصہ ہے کہ ہم کیسے اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔

شہری منصوبہ بندی میں مائیکرو موبیلٹی کا ادغام

میری نظر میں، مائیکرو موبیلٹی کو شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانا بہت ضروری ہے۔ میں نے مختلف ممالک میں دیکھا ہے کہ کیسے شہروں کو سائیکل لینز اور سکوٹر پارکس کے ساتھ ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف لوگوں کو ان چھوٹی سواریوں کو استعمال کرنے کی ترغیب ملتی ہے بلکہ یہ ان کے لیے محفوظ بھی بناتا ہے۔ ہمارے شہروں میں بھی ایسے انفراسٹرکچر کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگ اپنی گاڑیوں کو گھر پر چھوڑ کر ان ماحول دوست آپشنز کو اپنا سکیں۔ میں نے ایک دفعہ اپنی کمیونٹی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی جہاں شہری منصوبہ بندی کے ماہرین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ سائیکلنگ اور سکوٹرنگ کو فروغ دے کر ہم اپنے شہروں کو کس طرح صحت مند اور آلودگی سے پاک بنا سکتے ہیں۔ یہ محض ایک ٹرانسپورٹ کا طریقہ نہیں بلکہ صحت مند زندگی کی طرف ایک قدم ہے اور ایک پائیدار شہری ماڈل کی بنیاد ہے۔

حفاظت اور ضوابط کی اہمیت

جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے، اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی آتے ہیں۔ مائیکرو موبیلٹی کے بڑھتے استعمال کے ساتھ حفاظت اور ضوابط کا مسئلہ بھی ابھر رہا ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ بہت سے لوگ سکوٹرز اور بائیسکلز کو سڑکوں پر احتیاط سے نہیں چلاتے، جس سے حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومتوں اور مقامی اداروں کو ان کے استعمال کے لیے سخت قوانین بنانے چاہئیں اور لوگوں کو حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں، جب تک صحیح ضوابط نہیں ہوں گے، اس ٹیکنالوجی کا مکمل فائدہ اٹھانا مشکل ہو گا۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ یہ سہولیات سب کے لیے محفوظ ہوں اور شہر میں ان کا استعمال منظم طریقے سے کیا جا سکے۔

خودکار ڈرائیونگ: ڈرائیور کے بغیر سفر کی حقیقت

کبھی سوچا ہے کہ آپ گاڑی میں بیٹھے ہوں اور وہ خود بخود آپ کو منزل پر لے جائے؟ مجھے یاد ہے، جب پہلی بار میں نے ‘آٹونومس ڈرائیونگ’ کے بارے میں سنا تو مجھے لگا کہ یہ صرف سائنس فکشن کی بات ہے۔ مگر آج، میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹیسلا جیسی کمپنیاں اس خواب کو حقیقت میں بدل رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف ہمارے سفر کے طریقے کو بدل دے گی بلکہ سڑکوں پر حادثات کو بھی کافی حد تک کم کر سکتی ہے، کیونکہ زیادہ تر حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی طویل سفر کو بہت آرام دہ بنا دے گی، جہاں آپ ڈرائیونگ کی فکر کیے بغیر اپنی کتاب پڑھ سکتے ہیں یا فلم دیکھ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں، خودکار ڈرائیونگ مستقبل کی نقل و حرکت کا سب سے اہم ستون بنے گی اور یہ جلد ہی ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جائے گی۔ یہ ایک ایسی جدت ہے جو انسانیت کی تاریخ میں نقل و حرکت کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت اور سینسرز کا امتزاج

خودکار ڈرائیونگ کے پیچھے سب سے بڑی طاقت مصنوعی ذہانت اور جدید سینسرز ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز گاڑی کو اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے، راستے کا تعین کرنے اور فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ میں نے مختلف ٹیک کمپنیوں کے ویڈیوز دیکھے ہیں جہاں خودکار گاڑیاں بغیر کسی انسانی مداخلت کے پیچیدہ ٹریفک حالات میں بھی آسانی سے گزر جاتی ہیں۔ یہ گاڑیوں میں نصب ریڈار، کیمرے، لائڈار اور الٹراسونک سینسرز کا کمال ہے جو انہیں 360 ڈگری ویژن فراہم کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک مشین اتنی درستگی سے سڑک پر موجود رکاوٹوں، دیگر گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کو کیسے پہچان سکتی ہے۔ یہ واقعی ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہی ہے اور اسے مزید محفوظ اور موثر بنا رہی ہے۔

قانونی اور اخلاقی چیلنجز

بے شک خودکار ڈرائیونگ کے بہت سے فوائد ہیں، مگر اس کے ساتھ کچھ سنجیدہ قانونی اور اخلاقی چیلنجز بھی جڑے ہیں۔ مجھے یہ سوال بہت پریشان کرتا ہے کہ اگر خودکار گاڑی سے کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا – گاڑی کا مالک، سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی، یا کار بنانے والی کمپنی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں عالمی سطح پر دینے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، AI کے اخلاقی فیصلے بھی اہم ہیں، مثلاً کسی حادثے کی صورت میں گاڑی کو کس جان کو ترجیح دینی چاہیے؟ میرے خیال میں ان چیلنجز پر قابو پانے کے بعد ہی یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر اپنائی جا سکے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس پر عالمی سطح پر اتفاق رائے قائم ہو گا تاکہ یہ ٹیکنالوجی ایک محفوظ اور قابل اعتماد مستقبل کی راہ ہموار کرے۔

فضائی نقل و حرکت: آسمان میں انقلاب کی دستک

کبھی آپ نے ہالی ووڈ فلموں میں اڑنے والی ٹیکسیاں دیکھی ہیں؟ مجھے یقین تھا کہ یہ صرف خواب ہے، مگر آج، جب میں نے ‘اربن ایئر موبیلٹی’ (UAM) کے بارے میں پڑھا، تو مجھے احساس ہوا کہ یہ خواب حقیقت بننے کے قریب ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو شہروں میں لوگوں اور سامان کو ہوا کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میں الیکٹرک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ (eVTOL) گاڑیاں شامل ہیں جو ہیلی کاپٹرز کی طرح ٹیک آف کر سکتی ہیں مگر بہت کم شور پیدا کرتی ہیں۔ یہ میرے لیے ایک ناقابلِ یقین امکان ہے کہ ہم جلد ہی ٹریفک جام سے بچنے کے لیے آسمان کا راستہ اختیار کر سکیں گے۔ یہ نہ صرف وقت بچائے گا بلکہ شہروں میں سفر کا ایک نیا تجربہ بھی فراہم کرے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کی دستک ہمیں جلد ہی سننے کو ملے گی۔ یہ شہروں میں سفر کے تصور کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گی۔

اڑنے والی ٹیکسیاں اور ڈرون کی آمد

مجھے یاد ہے جب ڈرونز صرف فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ مگر اب، وہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، اور ‘اڑنے والی ٹیکسیاں’ بھی کوئی دور کی بات نہیں لگتی۔ کئی کمپنیاں پہلے ہی ٹیسٹ فلائٹس کر رہی ہیں اور مجھے توقع ہے کہ اگلے پانچ سے دس سالوں میں ہم انہیں تجارتی طور پر دستیاب دیکھیں گے۔ یہ صرف امیروں کی پہنچ میں نہیں ہوں گی، بلکہ ایک سستی اور قابلِ رسائی آپشن بن جائیں گی۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ کیسے ڈرونز کو ڈیلیوری سروسز میں استعمال کیا جا رہا ہے، اور یہ میرے لیے بہت متاثر کن ہے۔ سوچیں، ایک دن آپ اپنے گھر سے اڑنے والی ٹیکسی میں بیٹھ کر دفتر جائیں، اور ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ یہ واقعی ایک سنسنی خیز تصور ہے جو ہمارے شہری سفر کو ایک نئی جہت دے گا۔

فضائی ٹریفک کنٹرول اور ریگولیشنز

آسمان میں نقل و حرکت کے بڑھنے کے ساتھ ہی فضائی ٹریفک کنٹرول اور ریگولیشنز کا مسئلہ بھی انتہائی اہم ہو جائے گا۔ مجھے یہ سوال بہت اہم لگتا ہے کہ اتنی ساری اڑنے والی گاڑیاں کیسے منظم کی جائیں گی تاکہ حادثات سے بچا جا سکے؟ اس کے لیے جدید فضائی ٹریفک مینجمنٹ سسٹم اور سخت قوانین کی ضرورت ہو گی۔ میں نے پڑھا ہے کہ عالمی ادارے اس پر کام کر رہے ہیں تاکہ ایک محفوظ اور موثر فضائی کوریڈور بنایا جا سکے۔ میرے خیال میں، جب تک ایک ٹھوس ریگولیٹری فریم ورک نہیں بن جاتا، اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنا مشکل ہو گا۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ آسمان بھی سڑکوں کی طرح محفوظ اور قابل انتظام ہو تاکہ یہ ٹیکنالوجی پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکے۔

چیلنجز اور سنہرے مواقع: آگے بڑھنے کا راستہ

موبیلٹی انوویشن بے شک ہمارے لیے بہت سے نئے مواقع لے کر آئی ہے، مگر اس کے ساتھ کچھ سنجیدہ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوا ہے کہ ٹیکنالوجی جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ہمارے قوانین اور بنیادی ڈھانچہ اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہو رہے۔ سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ ان نئی ٹیکنالوجیز کو ہمارے موجودہ شہری نظام میں کیسے ضم کیا جائے۔ اس کے علاوہ، سیکیورٹی اور پرائیویسی کے مسائل بھی ہیں، خاص طور پر جب ہم بڑی مقدار میں ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر میں امید کرتا ہوں کہ ان چیلنجز پر قابو پا لیا جائے گا کیونکہ ان مواقع کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ صرف سفر کو آسان بنانے کی بات نہیں، بلکہ اس سے نئے کاروبار پیدا ہوں گے، ملازمتیں پیدا ہوں گی، اور ہمارے شہر زیادہ پائیدار بنیں گے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک ایسا دور ہے جہاں رکنے کا کوئی آپشن نہیں، بلکہ ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے۔

سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی ضرورت

ان تمام انقلابی تبدیلیوں کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری اور نئے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ مجھے یاد ہے جب میرے ملک میں پہلی موٹروے بنی تھی، تو اسے بننے میں کئی سال لگے تھے۔ اب ہمیں ایسے چارجنگ اسٹیشنز، ورٹی پورٹس (اڑنے والی گاڑیوں کے لیے ایئرپورٹس)، اور اسمارٹ سڑکیں بنانی ہوں گی جو خودکار گاڑیوں کو سپورٹ کریں۔ یہ سب کچھ بغیر بھاری سرمایہ کاری کے ممکن نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومتوں، نجی شعبے، اور بین الاقوامی اداروں کو مل کر اس پر کام کرنا ہو گا۔ میرے تجربے کے مطابق، جب تک انفراسٹرکچر مضبوط نہیں ہوتا، کوئی بھی بڑی ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہمیں طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی مستقبل کی ترقی کو روک سکتی ہے۔

سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی کے خدشات

موبیلٹی کی یہ تمام نئی ٹیکنالوجیز انٹرنیٹ اور ڈیٹا پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سائبر حملوں اور ڈیٹا کی چوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مجھے یہ خدشہ ہمیشہ رہتا ہے کہ اگر ہمارے ٹرانسپورٹیشن سسٹم کو ہیک کر لیا گیا تو کیا ہو گا؟ یہ نہ صرف ہماری پرائیویسی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر افراتفری بھی پھیل سکتی ہے۔ اس لیے، سائبر سیکیورٹی کے مضبوط اقدامات اور ڈیٹا پرائیویسی کے سخت قوانین بنانا انتہائی ضروری ہے۔ میں نے کئی بار پڑھا ہے کہ ڈیٹا بریکچز (data breaches) کی وجہ سے کمپنیوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے اور صارفین کا اعتماد کیسے مجروح ہوتا ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ یہ نئی سہولیات محفوظ اور قابل اعتماد ہوں تاکہ لوگ انہیں بغیر کسی خوف کے استعمال کر سکیں اور ان کی ذاتی معلومات بھی محفوظ رہیں۔

فیچر روایتی نقل و حرکت مستقبل کی نقل و حرکت
ایندھن پٹرول / ڈیزل بجلی / ہائیڈروجن
ڈرائیونگ مکمل طور پر انسانی خودکار / معاون
ملکیت زیادہ تر ذاتی مشترکہ / حسبِ ضرورت
ماحول پر اثر زیادہ آلودگی بہت کم آلودگی
صارف کا تجربہ رش، پارکنگ کا مسئلہ آرام دہ، موثر، کم وقت

اختتامی کلمات

شہروں کی نقل و حرکت کا یہ سفر واقعی حیرت انگیز ہے۔ میں ذاتی طور پر دیکھ رہا ہوں کہ کیسے ٹیکنالوجی اور جدت نے ہمارے شہروں کو بدل کر رکھ دیا ہے، انہیں زیادہ موثر، پائیدار اور رہائش کے قابل بنا دیا ہے۔ مستقبل ہمارے لیے بہت سی سہولیات اور نئے تجربات لے کر آ رہا ہے، اور میں اس تبدیلی کا حصہ بننے کے لیے بہت پرجوش ہوں۔ یہ صرف ٹریفک کے مسائل حل کرنے کی بات نہیں، بلکہ یہ ایک صحت مند اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ آئیے ان انقلابی تبدیلیوں کو گلے لگائیں اور ایک بہتر کل کی طرف بڑھیں۔

جاننے کے لیے اہم نکات

1. مشترکہ نقل و حرکت کو اپنائیں: شہروں میں ٹریفک اور آلودگی کم کرنے کے لیے کار پولنگ، رائڈ شیئرنگ، اور بائیک شیئرنگ جیسی خدمات کا استعمال کریں۔

2. برقی گاڑیوں پر غور کریں: طویل مدت میں ایندھن اور دیکھ بھال کے اخراجات بچانے اور ماحول کو بہتر بنانے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کی طرف رجحان کریں۔ اپنے علاقے میں چارجنگ انفراسٹرکچر کی دستیابی کو دیکھیں۔

3. مائیکرو موبیلٹی کا فائدہ اٹھائیں: کم فاصلے کے سفر کے لیے الیکٹرک سکوٹرز اور بائیسکلز بہترین آپشنز ہیں، خاص طور پر شہر کے مصروف حصوں میں۔

4. سمارٹ شہروں کی ٹیکنالوجی سے باخبر رہیں: مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا انالٹکس ٹریفک کو مزید بہتر بنا رہے ہیں۔ نقشہ جات اور نیویگیشن ایپس کا استعمال کریں جو یہ ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں۔

5. مستقبل کے رجحانات پر نظر رکھیں: خودکار ڈرائیونگ اور اربن ایئر موبیلٹی تیزی سے حقیقت بن رہی ہیں؛ ان سے متعلق ضوابط اور حفاظتی نکات پر نظر رکھیں۔

اہم نکات کا خلاصہ

شہری نقل و حرکت ٹیکنالوجی کی بدولت تیزی سے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے، جس میں اسمارٹ شہروں کا تصور، برقی گاڑیوں کا فروغ، مشترکہ سفری نظام کی مقبولیت، اور مائیکرو موبیلٹی کا ادغام شامل ہیں۔ خودکار ڈرائیونگ اور فضائی نقل و حرکت مستقبل کے اہم ستون ہیں جو ہمارے سفر کے طریقے کو مکمل طور پر بدل دیں گے۔ تاہم، ان تبدیلیوں کے ساتھ انفراسٹرکچر، سرمایہ کاری، سائبر سیکیورٹی، اور قانونی و اخلاقی چیلنجز بھی وابستہ ہیں جنہیں کامیابی سے حل کرنا ضروری ہے۔ یہ جدتیں نہ صرف ہمارے وقت کو بچائیں گی بلکہ شہروں کو مزید پائیدار اور ماحول دوست بنائیں گی۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: جب بھی میں ان نئی ٹیکنالوجیز اور تصورات کے بارے میں سنتا ہوں، تو میرے ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا ہمارے جیسے گنجان آباد شہر، جہاں ٹریفک جام ایک روزمرہ کا مسئلہ ہے، واقعی اس ‘موبیلٹی انوویشن’ کو ہضم کر پائیں گے؟ کیا یہاں کے بنیادی ڈھانچے (infrastructure) اور لوگوں کی عادات اس کے لیے تیار ہیں؟

ج: یہ بالکل جائز سوال ہے اور میں نے خود بھی کئی بار یہ سوچا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ صرف ٹیکنالوجی نہیں ہوتی، بلکہ لوگوں کا ذہن اور حکومتی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت ابتر تھی، تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اوبر (Uber) یا کریم (Careem) جیسی سروسز اتنی مقبول ہو جائیں گی۔ مگر لوگوں نے نہ صرف انہیں اپنایا بلکہ انہیں روزمرہ کا حصہ بنا لیا۔ یہی حال الیکٹرک گاڑیوں کا ہے۔ شروع میں ان کے چارجنگ اسٹیشنز کا مسئلہ تھا، مگر اب آہستہ آہستہ انفراسٹرکچر بھی بہتر ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت کو اس میں پہل کرنی پڑے گی، سمارٹ سڑکیں بنانی ہوں گی اور ایسے قوانین لانے ہوں گے جو ان نئی سواریوں کے لیے راستہ ہموار کریں۔ اگر ہم ٹریفک کے مسائل کی بات کریں، تو شاید یہی ‘موبیلٹی انوویشن’ ہمیں اس سے نجات دلانے کا واحد راستہ ہو۔ لوگوں کا رویہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے، اس لیے میں پرامید ہوں۔

س: ان ‘موبیلٹی انوویشنز’ کا ہماری روزمرہ کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا یہ صرف امیر لوگوں کے لیے ہوں گی، یا ایک عام آدمی کی زندگی میں بھی کوئی واضح فرق محسوس ہوگا؟ مثلاً، کیا میری صبح دفتر جانے کی روٹین یا بچوں کو اسکول چھوڑنے میں کوئی آسانی ہو گی؟

ج: میرا ماننا ہے کہ یہ تبدیلیاں صرف بڑے اور امیر طبقے تک محدود نہیں رہیں گی۔ جس طرح سمارٹ فونز پہلے بہت مہنگے تھے مگر آج ہر ہاتھ میں نظر آتے ہیں، ویسے ہی یہ موبیلٹی سلوشنز بھی وقت کے ساتھ زیادہ قابل رسائی اور سستے ہوتے جائیں گے۔ ذرا تصور کریں، آپ کو گاڑی پارک کرنے کی فکر نہیں ہوگی کیونکہ آپ خود مختار ٹیکسی (autonomous taxi) میں سفر کر رہے ہوں گے جو آپ کو دروازے تک چھوڑ کر چلی جائے گی۔ یا پھر اگر آپ کو کسی اسٹور سے کچھ لینا ہے تو ایک چھوٹا خودکار ڈرون (drone) آپ کی دہلیز پر وہ چیز پہنچا دے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ سب سے بڑا فائدہ وقت کی بچت اور ذہنی سکون ہو گا جو ٹریفک جام اور گاڑی چلانے کی پریشانی سے نجات کے بعد ملے گا۔ میں نے خود محسوس کیا ہے کہ جب کوئی چیز آپ کے وقت اور پیسے بچاتی ہے، تو وہ بہت جلد عام ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بچوں کو وہ ٹریفک جام کا سامنا نہ کرنا پڑے جو ہم نے جھیلا ہے۔

س: مستقبل میں ‘موبیلٹی انوویشن’ کی کون سی ایسی ٹیکنالوجیز یا رجحانات ہیں جو آپ کو سب سے زیادہ دلچسپ لگتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ انقلابی ثابت ہوں گی؟ کیا واقعی اڑنے والی گاڑیاں یا ہائپر لوپ (Hyperloop) جیسے منصوبے حقیقت بن پائیں گے؟

ج: اوہ، یہ سوال مجھے بہت پرجوش کر دیتا ہے! میں تو خود بچپن سے اڑنے والی گاڑیوں کے خواب دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے ذاتی طور پر سب سے زیادہ ‘اربن ایئر موبیلٹی’ یعنی شہروں میں فضائی نقل و حرکت اور ‘خود مختار ڈرائیونگ’ (autonomous driving) میں دلچسپی ہے۔ میں نے جب پہلی بار کسی گاڑی میں ایڈوانس ڈرائیور اسسٹنس سسٹمز (ADAS) کا استعمال کیا، تو مجھے محسوس ہوا کہ مستقبل کتنا قریب ہے۔ سوچیں، ایک ایسی گاڑی جو خود فیصلہ کر سکے، ٹریفک میں راستہ بنائے اور آپ کو بس بیٹھ کر لطف اندوز ہونا ہو!
اس کے علاوہ، ‘شیئرڈ موبیلٹی’ کے نئے ماڈلز، جیسے کہ الیکٹرک سکوٹرز اور بائیکس جو شہروں میں عام ہو رہے ہیں، بہت اہم ہیں۔ یہ چھوٹے فاصلوں کے لیے بہترین حل ہیں۔ جہاں تک ہائپر لوپ یا اڑنے والی گاڑیوں کا تعلق ہے، سائنس فکشن اب حقیقت کے بہت قریب ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اگلے کچھ عشروں میں یہ چیزیں بھی ہمارے لیے اتنی ہی عام ہو جائیں گی جتنی آج سمارٹ فونز ہیں۔ یہ صرف ٹیکنالوجی کی بات نہیں، بلکہ یہ انسان کی وہ فطری خواہش ہے کہ وہ تیزی سے اور آرام دہ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکے۔

📚 حوالہ جات

3. برقی گاڑیاں: صرف ماحول دوست نہیں، بلکہ مستقبل کی ضرورت

구글 검색 결과